امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بھارتی ہم منصب جے شنکر سے رابطہ کرکے خطے کی کشیدہ صورتحال میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ نے جے شنکر سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنوبی ایشیا میں امن اور سیکیورٹی برقرار رکھنے کا کہا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس کے مطابق مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی طرح بھارت کے ساتھ بھی تعاون کے لیے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب جے شنکر پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کریں۔
مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنوبی ایشیا میں امن اور سیکیورٹی برقرار رکھنے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت پر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے بیان میں کہا کہ مارکو روبیو نے اپنے بھارتی ہم منصب سے پہلگام حملے میں جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔
امریکا کا بھارت کےساتھ 13 کروڑ ڈالر کا دفاعی معاہدہ
دوسری جانب خطے میں کشیدہ صورتحال کے دوران امریکا نے بھارت کے ساتھ 13 کروڑ ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی منظور کرلیا ہے۔
امریکی دفاعی معاہدے کرنے والے ادارے ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے بھارت کے ساتھ 13 کروڑ ڈالر کے دفاعی معاہدے کی منظوری کا اعلامیہ جاری کیا، ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی کے مطابق معاہدے میں سمندری ویژن سافٹ ویئر اور تربیت شامل ہے۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ معاہدے سے خطے میں فوجی توازن متاثر نہیں ہوگا، اس سے جنوبی ایشیا میں استحکام لانے میں مدد ملے گی۔
قبل ازیں امریکی سیکریٹری خارجہ نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران انہیں پہلگام واقعے کے بعد جنوبی ایشیا میں بھارت کی حالیہ کشیدگی اور پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا تھا، اور مطالبہ کیا تھا کہ امریکا بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اشتعال انگیز بیانات سے گریز اور ذمہ داری سے کام لے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے امریکی سیکریٹری خارجہ سے کہا تھا کہ دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتے ہیں، انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے قائدانہ کردار اور 90 ہزار سے زائد جانوں اور 152 ارب امریکی ڈالر سے زائد کے معاشی نقصانات کی قربانی کو اجاگر کیا۔
بھارت کے اشتعال انگیز اور اکسانے والے رویے کو انتہائی مایوس کن اور پریشان کن قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی اشتعال انگیزی کا مقصد پاکستان کی دہشت گردی کو شکست دینے کی جاری کوششوں، خاص طور پر افغان سرزمین سے کام کرنے والی عسکریت پسند تنظیموں بشمول داعش، آئی ایس کے پی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سے توجہ ہٹانا ہے۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں مقامی سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے بے جا الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفارتی عملے کو 30 اپریل 2025 تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، اس کے علاوہ بھی مودی سرکار نے پاکستان کے حوالے سے کئی جارحانہ فیصلے کیے، جن میں پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی بھی شامل ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے بہترین سفارتی حکمت عملی کو اختیار کیا، اور بھارت کے سفارتی عملے کو بھی 30 افراد تک محدود کر دیا گیا تھا، قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا تھا کہ پانی پاکستان کی لائف لائن ہے، پانی بند کیا گیا تو پاکستان اسے جنگ تصور کرے گا۔
جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی سے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، پاکستان نے اقوام متحدہ میں جعفر ایکسپریس حملے کا االزام علاقائی حریف پر عائد کیا ہے، اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا، تاہم بھارت کی جانب سے امن کے لیے اقدامات کے بجائے روایتی ہٹ دھرمی کا سلسلہ برقرار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے دونوں ملکوں پر کشیدگی میں کمی لانے پر زور دیا ہے، تاہم بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی رکھے ہوئے ہے۔