چین کے ہوبی صوبے میں ای چانگ شہر کے مغرب میں بہنے والے یانگ زے (Yangtze River) دریا پر باندھے گئے تین دروں والے ڈیم، جسے عام طور پر ’’تھری گورجیز ڈیم‘‘ (Three Gorges Dam) کے نام سے پکارا جاتا ہے، کی تعمیر جب 1994ء میں شروع کی گئی تھی تو یہ چین میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا انجینئرنگ کا منصوبہ سمجھا جاتا تھا اور 2006ء میں جب اس ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگئی تو یہ دنیا میں ڈیم کا سب سے بڑا اسٹرکچر قرار پایا تھا۔ یہ ڈیم اور اس کے ساتھ قائم ہونے والا پن بجلی گھر (ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ) مختلف مراحل میں اور کئی سال کے عرصے میں مکمل کیے گئے ہیں۔ اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کی مکمل صلاحیت 2012ء میں حاصل کی گئی تھی۔ اس ڈیم سے نہ صرف بجلی پیدا کی جاتی ہے بلکہ سمندر کے سفر پر جانے والے مال بردار جہازوں کو سفری سہولت بھی میسر آتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کا ایک اہم مقصد دریا کے آس پاس کی آبادیوں کو سیلابوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن اس کی یہ افادیت ابھی تک غیرواضح ہے اور اس پر بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ اگرچہ ’’تھری گورجیز ڈیم‘‘ کی تعمیر کو انجینئرنگ کا ایک عظیم شاہکار قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سے تنازعات بھی اُلجھے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے کم از کم 13لاکھ افراد بے گھر ہوئے، بہت سے قدرتی وسائل، بے شمار تعمیراتی اور تاریخی اہمیت کے آثار تباہ ہوگئے۔ اس ڈیم کے ذخیرہ آب پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس علاقے میں تودے گرنے اور زلزلے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
ایک سیدھ میں کنکریٹ سے بنا ’’تھری گورجیز ڈیم‘‘ 7660فٹ لمبا ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 607فٹ ہے۔ اس کی تعمیر میں 2کروڑ 80لاکھ مکعب میٹر کنکریٹ اور 4لاکھ 63ہزار میٹرک ٹن اسٹیل استعمال کی گئی ہے۔ یانگ زے دریا جن تین گھاٹیوں سے گزرتا ہے، ان کے نام کوتانگ، وو اور ایگزی لینگ ہیں اور دریا پر بند باندھنے سے ان درّوں کا ایک بہت بڑا رقبہ جو تقریباً 600 کلومیٹر پر محیط ہے، پانی میں ڈوب چکا ہے۔ دریا کا پانی روکنے کی غرض سے وہاں ایک بہت گہرا ذخیرۂ آب بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے چین کے مشرقی ساحل پر واقع شنگھائی سے اندرون ملک شہر جونگ قنگ تک 2250کلومیٹر طویل بحری راستے پر مال بردار بحری جہاز سفر کرسکتے ہیں۔
اس ڈیم سے محدود پیمانے پر پن بجلی کی پیداوار 2003ء میں ہی شروع کردی گئی تھی اور جیسے جیسے اضافی ٹربائن جنریٹر لگتے گئے، بجلی کی پیداوار اور بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ 2012ء میں ڈیم کے تمام 32ٹربائن جنریٹرز کام کرنے لگے۔ ان 32یونٹس کے علاوہ دو اضافی جنریٹر کی مدد سے ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 22,500میگاواٹ تک پہنچ گئی جو15 ایٹمی ری ایکٹر سے حاصل ہونے والی بجلی کے مساوی ہے اور اس طرح تھری گورجیز ڈیم دنیا بھر میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ڈیم بن گیا۔
اس ڈیم کی تعمیر کا ایک بڑا مقصد دریائے یانگ زے کے طاس میں آباد لوگوں کو وقفے وقفے سے دریا میں آنے والی طغیانی سے محفوظ کرنا بھی بتایا گیا تھا لیکن یہ ڈیم اس مقصد کو کس حد تک پورا کرسکا، اس پر مسلسل بحث ہوتی رہتی ہے۔ 2020ء میں چین میں اتنا خوفناک سیلاب آیا جس کی نظیر گزشتہ تین عشروں میں نہیں ملتی۔ اس موقع پر ڈیم کا ذخیرہ آب اپنی زیادہ سے زیادہ گنجائش کی حد کو پہنچ چکا تھا۔ اس ریزر وائر میں 2003ء سے پانی جمع کرنا شروع کیا گیا تھا اور 2020ء میں یہاں پانی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا۔ چینی حکام کا یہ کہنا تھا کہ اس ڈیم کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان کم ہوا ہے اور اگر یہ تعمیر نہ کیا جاتا تو بہت بڑے پیمانے پر تبای پھیلتی، تاہم ناقدین اسے تسلیم نہیں کرتے اور ان کا یہ اصرار ہے کہ 2020ء کے تباہ کن سیلاب نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ سیلاب پر قابو پانے میں تھری گورجیز ڈیم اتنا مؤثر ثابت نہیں ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی۔
چین میں تعمیر شدہ دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کا ذخیرہ آب اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ اگر یہ اپنی مکمل گنجائش تک بھر جائے تو اس کے بوجھ کی وجہ سے ہماری زمین کی گردش میں بھی فرق آسکتا ہے جس کی تصدیق امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ’’ناسا‘‘ نے بھی کی ہے۔ ذخیرہ آب میں جب پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح، سمندر کی سطح سے 547فٹ اور دریا کی سطح سے 299فٹ بلند ہوتی ہے، اس وقت یہ ذخیرہ آب اوسطاً 660کلومیٹر لمبا اور 1.12 کلومیٹر چوڑا ہوجاتا ہے۔ ذخیرہ آب کا سطحی رقبہ 1045مربع کلومیٹر ہے اور مجموعی طور پر 632مربع کلومیٹر رقبے کو زیرآب کرسکتا ہے۔ اس وقت ذخیرہ آب میں 39.3مکعب کلومیٹر پانی ہوسکتا ہے اور اگر اس پانی کا کسی طرح وزن کیا جائے تو اس کا وزن 39کھرب کلوگرام (42ارب ٹن) ہوگا۔ اگر ہم زمین پر کسی ایک جگہ اتنی بڑی مقدار میں کوئی مادّہ جمع کریں خواہ وہ پانی ہی کیوں نہ ہو تو اس کی وجہ سے زمین کی حرکت پر اثر پڑسکتا ہے جس کی وجہ ایک مظہر ہوتا ہے جسے Moment Of Inertia کہتے ہیں۔ سمندر کی سطح سے 547فٹ کی بلندی پر اگر 39کھرب کلوگرام پانی جمع ہوجائے تو اس سے زمین کا ’’موومنٹ آف انرشیا‘‘ یا جمود بڑھ جائے گا اور زمین کی گردش سست پڑ جائے گی۔ تاہم یہ اثر انتہائی خفیف ہوسکتا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایک محدود جگہ میں پانی کی اتنی بھاری مقدار جمع کرنے سے زمین کی رفتار میں جو سست روی آئے گی، اس سے دن کے دورانیے میں 0.66 مائیکرو سیکنڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ’’موومنٹ آف انرشیا‘‘ سے زمین درمیان میں کچھ زیادہ گول اور اوپر سے چپٹی ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے زمین کا محور بہت معمولی تبدیل ہوسکتا ہے اور قطب کی پوزیشن تقریباً 2سینٹی میٹر (0.8انچ) ترچھی ہوسکتی ہے۔
اگرچہ زمین کی گردش کچھ دیگر عوامل کی وجہ سے بھی اکثر سست پڑ جاتی ہے جیسے کہ چاند کی مختلف حالتوں میں یا انتہائی شدید زلزلے میں یا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھی قطب شمالی کی پوزیشن میں برائے نام تبدیلی آجاتی ہے۔ زمین کی گردش کا وقت پر بھی اثر ہوتا ہے اور سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق ہر پانچ سال یا اس سے کچھ کم یا زیادہ عرصے میں دن کے دورانیے میں ایک ملی سیکنڈ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ناسا نے تخمینہ لگایا ہے کہ تھری گورجیز ڈیم کا ذخیرہ آب پوری گنجائش تک بھر جانے کے بعد زمین کی گردش کو 0.06مائیکرو سیکنڈ تک سست کردیتا ہے جو ایک سیکنڈ کے 10لاکھ ویں حصے کے 6سوویں حصے کے برابر ہے۔
تین گھاٹیوں سے گزر کر آنے والے دریائے یانگ زے پر ڈیم بنانے کی تجویز سب سے پہلے جدید چین کے بانی کمیونسٹ رہنما سن یات سین نے 1919ء میں پیش کی تھی، تاہم 1944ء تک اس پر غور ہی ہوتا رہا۔ اس دوران 1946ء میں عوامی جمہوریہ چین نے امریکا کے بیورو آف ری کلے میشن سے اس منصوبے کی ڈیزائننگ کا معاہدہ بھی کیا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کی خانہ جنگی کی وجہ سے اس معاہدے پر عملدرآمد ترک کردیا گیا۔ 1953ء میں چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ نے اس منصوبے میں نئی روح پھونکی اور اس کے قابل عمل ہونے کے بارے میں رپورٹیں تیار کروائیں۔ 1955ء میں تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی لیکن کئی وجوہات اور خدشات کی بناء پر اس ڈیم کی تعمیر کو تقریباً 40سال تک مؤخر کیا جاتا رہا۔ بنیادی طور پر یہ پروجیکٹ 2008ء میں مکمل ہوجانا چاہیے تھا اور ابتدائی تخمینے کے مطابق اس پر 25ارب ڈالر کی لاگت آنی تھی لیکن وقت کے ساتھ بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے بعض رپورٹس کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر پر 37ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ اخراجات میں مسلسل اضافے کے علاوہ ماحولیاتی تحفظات، چین کی اشرافیہ کی سیاسی کرپشن اور 1500شہروں، قصبات اور دیہات میں آباد 19لاکھ افراد کو ایک جگہ سے منتقل کرکے دوسری جگہ آباد کرنے کے مسائل کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل کی رفتار بہت سست رہی بلکہ بعض اوقات کام مکمل طور پر روک دینا پڑا۔ اس وقت کی ترقی پذیر چین کی صنعت اور کارخانوں کو بھاری مقدار میں بجلی کی ضرورت تھی اور اس ڈیم کی تعمیر سے چین کی پن بجلی کی ضرورت کا بڑا حصہ پورا ہورہا تھا۔ بجلی کی پیداوار کے معاملے میں تھری گورجیز ڈیم نے امریکا کے عظیم الجثہ ’’ہوور ڈیم‘‘ (Hover Dam) کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہوور ڈیم سالانہ تقریباً 4ارب کلوواٹ گھنٹے بجلی پیدا کرتا ہے اور 13لاکھ افراد کی بجلی کی ضرورتیں پوری کرسکتا ہے، تاہم چین کا تھری گورجیز ڈیم ہوور کے مقابلے میں 11گنا زیادہ بجلی جنریٹ کرتا ہے اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک ڈیم پورے چین کی بجلی کی طلب پوری کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس مشرقی ایشیائی ملک کو اس ڈیم کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں جہاز رانی کی بھی بہت زیادہ سہولتیں حاصل ہوئی ہیں۔
اگرچہ اس ڈیم کے بےشمار فوائد بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے متعلق کچھ تلخ حقائق بھی چینی عوام کیلئے پریشان کن ہیں۔ بعض تخمینوں کے مطابق چین کا 70فیصد تازہ صاف پینے کا پانی آلودہ ہوچکا ہے اور اس ڈیم کی وجہ سے پانی کی آلودگی مزید بڑھ رہی ہے۔ تھری گورجیز ڈیم کے اردگرد کے علاقوں میں 6400اقسام کی نباتات، 3400 اقسام کے حشرات اور گرم علاقوں میں رہنے والے500 اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں جن کی افزائش اس ڈیم کی تعمیر سے خطرے میں پڑگئی ہے۔ علاوہ ازیں ذخیرہ آب کے کٹاؤ کی وجہ سے تودے سرکنے اور گرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ایسٹ چائنا سی میں دنیا کی سب سے بڑی ماہی گیری کی صنعت خطرے سے دوچار ہے۔