تازہ تر ین

جاوید اختر کا نیا الزام: مکان نہ ملنے کا ذمہ دار پاکستان

بھارتی نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر نے کئی برس پہلے ممبئی میں مکان نہ ملنے کا ذمہ دار بھی پاکستانیوں کو قرار دے دیا۔

دی للن ٹاپ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جاوید اختر نہ مسلمان کو مکان نہ فروخت کرنے والے مالک مکان کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھول گئے یہ تقسیم ہند یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ معاملہ تھا۔

دوران انٹرویو جاوید اختر نے بشریٰ انصاری کی جانب سے ‘خاموش رہنے’ کا کہنے پر سوال اٹھایا۔

خیال رہے کہ بشریٰ انصاری نے اس سے قبل سوشل میڈیا پر اختر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ممبئی میں کرائے پر گھر بھی نہیں لے سکتے اور انہیں نصیر الدین شاہ کی طرح خاموش رہنا چاہیے۔

جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بشریٰ انصاری نے کہا کہ نصیرالدین شاہ خاموش رہتے ہیں تو مجھے بھی خاموش رہنا چاہیے، لیکن وہ کون ہیں جو فیصلہ کریں کہ میں کب بولوں؟ انہیں یہ حق کس نے دیا؟

 انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہاں، ہم ہندوستانیوں کے آپس کے اندرونی مسائل ہیں لیکن جب کوئی باہر سے انگلی اٹھاتا ہے، تو میں سب سے پہلے ہندوستانی ہوں، میں خاموش نہیں رہوں گا۔’

ممبئی میں گھر نہ ملنے کے دعوے کا جواب دیتے ہوئے اختر ہنس پڑے اور طنزیہ انداز میں کہا کہ ‘ہاں بالکل! میں اور شبانہ اب سڑکوں پر سو رہے ہیں۔’

اس کے بعد جاوید اختر نے اس کہانی کی وضاحت کی کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ سچ ہے اور’ شبانہ جیسی عورت کو مسلمان کہتے ہوئے گھ نہیں دیا گیا تھا’۔

جاوید اختر نے بتایا کہ ‘تقریباً 25 سال پہلے شبانہ سرمایہ کاری کی غرض سے ایک فلیٹ خریدنا چاہتی تھی، بروکر نے ہمیں بتایا کہ فلیٹ کا مالک مسلمانوں کو فروخت نہیں کرنا چاہتا’۔

مسلمانوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کا دفاع جاوید اختر نے کچھ یوں کیا کہ ‘فلیٹ کا مالک ایک سندھی تھا جن کے ماں باپ کی زمین جائیداد چھین کر اسے سندھ سے نکالا گیا تھا اور وہ مہاجر کی طرح ممبئی آئے اور محنت کر کے انہوں نے پھر جائیدادیں بنائیں، تقسیم کی تلخیاں ان کے اندر موجود ہیں’۔

جاوید اختر نے اس کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ‘یہ تلخیاں پھر ہم پر نکل جاتی ہیں، اس کے ذمہ دار وہ ہیں یا تم (پاکستانی) ہو، جنہوں نے انہیں نکالا تھا، اس نے گھر تم لوگوں کی وجہ سے نہیں دیا تھاکیوں کہ تم لوگوں نے اسے سندھ سے نکالا تھا’۔

نغمہ نگار کا مزید کہنا تھا کہ ‘تقسیم کے بعد بہت سے لوگ آئے جنہوں نے اس صدمے کو برداشت کرلیا’۔

جاوید اختر کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں ممبئی میں 19 سال کی عمر سے رہتا ہوں اور کوئی مجھے 24 گھنٹے دے کر کہے سب جائیداد دولت، عزت چھوڑ کر 24 گھنٹوں میں اپنا سامان باندھ کر وہاں نکل جاؤں پھر مجھے لائنوں میں لگ کر کھانا لینا پڑے، تو کیسا لگے گا مجھے’۔

ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ ‘وہ آدمی جس نے ہمیں گھر نہیں دیا تھا اس کے ساتھ یہ ہوا تھا، تم اسے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہو، تم اپنے گریبان میں جھانکو، ہمارے ساتھ جو ہوا وہ تمہاری وجہ سے ہوا اور تم ہمیں بتاتی ہو کہ ہم چپ رہیں’۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ فروری 2023 میں پاکستان گئے تھے اور یہ بھی کہا کہ میں اب وہاں نہیں جا پاؤں گا۔

اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں روزانہ پاکستانیوں کی جانب سے 50-60 گالیوں بھرے پیغامات موصول ہوتے ہیں، لیکن اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بشریٰ انصاری نے کیا کہا تھا؟

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل بشریٰ انصاری نے جاوید اختر کو ان کے بھارت نواز بیان پر جھاڑ پلاتے ہوئےکہا تھا کہ ‘انہیں تو (ہرزہ سرائی کا) بہانہ چاہیے تھا، اصل میں انہیں ممبئی میں مکان کرایے پر نہیں ملتا تھا، مسلمان ہی نہیں ہیں وہ تو اللہ جانے کون بن گئے ہیں مجھے نہیں سمجھ آتی’۔

انہوں نے کہا ‘اتنا بھی کوئی کیا ڈرے یا لالچ کرے، آپ چپ ہی کرجائیں، نصیر الدین شاہ اور دیگر لوگ بھی تو چپ بیٹھے ہیں سب اپنے دل کی باتیں دل میں رکھے ہوئے ہیں، یہ تو پتا نہیں کیا کہہ رہے ہیں کہ اللہ کو ہی نہیں مانتے، نہیں مانیں اللہ ہی آپ سے پوچھے گا’۔

بشریٰ انصاری نے کہا  تھاکہ ‘یہاں (پاکستان)سے آپ لڈیاں ڈالتے ہوئے جاتے ہیں اور وہاں جا کر کیا بول رہے ہیں کچھ شرم کریں’۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain