اگر آپ بھی ڈراموں کے دلدادہ ہیں تو سپر ہٹ سیریل ‘میرے ہمسفر‘ اور ’دل موم کا دیا’ تو ضرور ہی دیکھا ہوگا لیکن ان ڈراموں کے فینز کیلئے ایک بری خبر سامنے آئی ہے جس سے پوری ڈراما انڈسٹری میں غم کے بادل چھا گئے۔
متعدد رپورٹس کے مطابق شوبز انڈسٹری کی نامور کہانی نویس سائرہ رضا گزشتہ رات شدید دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئیں۔
طبیعت کی ناسازی کے باعث انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔
سائرہ رضا اپنی گہری سوچ، جذباتی کہانیوں اور متاثر کن تحریروں کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ انہوں نے کئی سپر ہٹ اور مقبول ترین ڈرامے لکھے جو ناظرین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
لازوال کہانیاں تحریر کرنے پر عبور حاصل کرنے والی سائرہ رضا کے کریڈٹ میں ’دلِ موم کا دیا‘، ’محبت داغ کی صورت‘، ’میرے ہمسفر‘ اور حالیہ ڈرامہ ’یحییٰ‘ نے ناظرین کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑا۔جبکہ ’دلِ موم کا دیا‘ اور ’میرے ہمسفر‘ نے پاکستان سمیت بین الاقوامی آڈینس کے ذریعے داد وصول کی۔
اور اب انکے اچانک اس دنیا سے چلے جانے کے بعد پوری انڈسٹری غم سے نڈھال ہے اور اپنے تعزیتی پیغامات کے ذریعے غم و دکھ کا اظہار کرتی نظر آرہی ہے۔
سائرہ رضا کا بطور مصنفہ سفر:
واضح رہے کہ سائرہ رضا نے معاشرتی مسائل اور پیچیدہ جذبات کو جس خوبصورتی اور حساسیت سے پیش کیا، وہ انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔
ان میں لکھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ماضی کے ایک انٹرویو میں سائرہ رضا نے بتایا تھا کہ،’انکی والدہ ایک اسکول ٹیچر تھیں اور انہیں رسالے اور ڈائجسٹ لکھنے کا بے حد شوق تھا یہاں تک انکا گھر بے شمار کتابوں سے بھرا ہوا تھا، شاید انکی والدہ کی یہی عادت ان میں بھی منتقبل ہوگئی’۔
وہ بتاتی ہیں کہ حالانکہ اس وقت میں اسکول میں پڑھتی تھی لیکن کم عمری میں ہی اپنی والدہ کے رسالے چھپ چھپ کر پڑھا کرتی تھی جن میں زیادہ ’تین عورتیں اور تین کہانیاں’ شامل تھا بس اس کے بعد مجھ میں چھپ چھپ کر پڑھنے کی عادت ہوگئی۔
سائرہ رضا کے بقول حالانکہ اس وقت میری والدہ نے مجھے صرف بچوں کی کہانیاں پڑھنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن پھر مجھ میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور آٹھویں جماعت میں میں نے ایک چھوٹی سی کہانی لکھ کر اپنے شوق کو پورا کیا جوکہ ’اخبارِ جہاں’ میں شائع بھی ہوئی’۔
پھر میٹرک سے فارغ ہونے کے بعد ڈائجسٹ کیلئے بے شمار کہانیاں لکھیں لیکن بدقسمتی سے سب کی سب مسترد ہوگئیں لیکن پھر کالج لائف میں مقابلے میں اپنی قسمت آزمائی اور پہلی پوزیشن حاصل کی اور پھر اسکے بعد کئی بار نشیب و فراز دیکھنے کے بعد میرے لکھنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا۔