اقوام متحدہ میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کے ساتھ موجود خاتون شمع جونیجو کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے بعد وزارت خارجہ کو وضاحت دینی پڑی تھی کہ پاکستانی وفد میں متعلقہ خاتون شامل نہیں تھیں تاہم اب متعلقہ خاتون کا تفصیلی بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستانی مشن میں وزیراعظم کے ایڈوائزر کے طور پر شریک تھیں۔
شمع جونیجو نے لکھا میں پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان اور وزیراعظم شہباز شریف کے لیے کام کر رہی تھی، پاک بھارت جنگ کے دوران میرے پالیسی بریفس، ایڈوائس اور پوائنٹس، سب کچھ ریکارڈ کا حصہ اور محفوظ ہیں۔
شمع جونیجو نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ مجھے وزیراعظم صاحب نے اقوام متحدہ کی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا اور خود وفد کا حصہ بنایا، میرا نام باقاعدہ ایڈوائزر کے طور پر شامل کیا گیا اور میرا سکیورٹی پاس بھی اسی حوالے سے ایشو کیا گیا، میں نے اُن کی ٹیم کے ساتھ مل کے دن رات کام کیا اور میں نے اُن کے ساتھ سفر کیا۔
سوشل میڈیا پر انہوں نے لکھا کہ میں نے وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے ساتھ ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا، اُن کی بِل گیٹس جیسی اہم ترین سائیڈ لائین میٹنگس کا حصہ بنی جس کی فوٹیج ٹی وی پر بھی آئیں، کلائیمیٹ کانفرنس میں وزیراعظم صاحب کے پیچھے میں اور اسحاق ڈار صاحب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جن کی وزارت نے میرے بارے میں ٹوئٹ کیا ہے کہ میں وفد کا حصہ نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا اس کانفرنس کے بعد مجھے پروٹوکول ٹیم والے اے آئی کانفرنس میں لے گئے جہاں خواجہ آصف کے پیچھے بلال اور میں سارا وقت ناصرف ساتھ بیٹھے رہے بلکہ بلال نئی تقریر بھی لکھتے رہے، اس تقریر کے بعد ہم نے مل کے چائے پی، گاڑی کے انتظار میں 40 منٹ ساتھ بیٹھے، دوبارہ تصویریں لیں، اور ایک ہی کار میں تینوں ساتھ واپس ہوٹل بھی آئے، خواجہ صاحب کار میں پیچھے میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔
شمع جونیجو نے یہ بھی لکھا کہ آخری دن وزیراعظم کی تقریر کے وقت بھی میں سب کے ساتھ اقوام متحدہ میں تھی جہاں خواجہ آصف میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور ہم سب نے مل کے وزیراعظم کے لئے تالیاں بجائیں۔
انہوں نے ایکس پر کہا وزیراعظم کی تاریخی تقریر صرف میری لکھی ہوئی نہیں تھی، ہم سب کے ٹیم ورک کا حصہ تھی، اور ہم سب کی محنت شامل تھی، میری واپسی کی فلائٹ بھی پہلے ہی طے تھی اور مجھے مشن پروٹوکول والے خود ائیرپورٹ تک ڈراپ کرنے آئے۔
ان کا کہنا ہے اب خواجہ صاحب ایسے بیان کیوں دے رہے ہیں اور کس ایجنڈے کے تحت اپنی حکومت کے ایک تاریخی دورے کو بدنام کر رہے ہیں، وہ وزیراعظم صاحب کو اُن سے پوچھنا چاہیے، کیونکہ اُن کی اتھارٹی چیلنج ہوئی ہے، میری نہیں!