جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہمیشہ پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کی، آج وہی حلف مجھے اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور کرتا ہے اپنا استعفیٰ پیش کروں، آئین، جس کی پاسداری کا میں نے حلف لیا تھا، اب موجود نہیں رہا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استعفیٰ دے دیا اور اپنا استعفیٰ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو بھجوادیا۔
استعفے متن میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ 11 سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا، مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اُٹھایا۔
انہوں نے مزید تحریر کیا کہ تمام حلفوں کے دوران میں نے ایک ہی وعدہ کیا آئین سے وفاداری کا، میرا حلف کسی فرد یا ادارے سے نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان سے تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل، میں نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا، خط میں اس ترمیم کے ممکنہ اثرات پر آئینی تشویش ظاہر کی تھی، اُس وقت کے خدشات، خاموشی اور بے عملی کے پردے میں آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خود کو یہ یقین دلانے کی کتنی ہی کوشش کروں، حقیقت یہی ہے آئین کی روح پر حملہ ہو چکا ہے، نئے ڈھانچے جن بنیادوں پر تعمیر ہو رہے ہیں، وہ آئین کے مزار پر کھڑے ہیں، جو عدالتی چُغے ہم پہنتے ہیں، وہ محض رسمی لباس نہیں، یہ اُس مقدس اعتماد کی علامت ہے جو قوم نے عدلیہ پر کیا، تاریخ گواہ ہے اکثر اوقات یہ لباس خاموشی اور بے عملی کی علامت بن گیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آنے والی نسلوں نے ان کو مختلف طور پر نہ دیکھا، تو ہمارا مستقبل بھی ہمارے ماضی جیسا ہی ہوگا، امید ہے آنے والے دنوں میں عدل کرنے والے سچائی کے ساتھ فیصلے کریں گے، اسی امید کے ساتھ میں آج یہ چُغہ آخری بار اتار رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے اپنا استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں، اللّٰہ کرے، جو انصاف کریں، وہ سچائی کے ساتھ کریں۔





































