تازہ تر ین

نیا چئیرمین سینٹ ، اصل کنجی فاٹا بلوچستان کے سنیٹرز ، چھوٹے گروپوں کے پاس ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ موجودہ حکومت کے خلاف اگر عمران خان اور زرداری آپس میں متصادم ہیں۔ عمران خان کہہ چکا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین قبول نہیں کرتا۔ بالواسطہ وہ اپنی سپورٹ ن لیگ کے خلاف استعمال کریں گے۔ زرداری اگر اپنا امیدوار لاتے ہیں تو ان کے سنیٹر ان کی جانب ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو اتحاد بنے گا۔ وہ اپنا مشترکہ امیدوار لے کر آئے تو، خواہ اس میں پی پی پی شامل ہو تو تحریک انصاف کا ووٹ ادھر ہی جائے گا۔ ایم کیو ایم عام طور پر وفاقی حکومت کے ساتھ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ بہت سخت مقابلہ ہے۔ ایم کیو ایم کو بحرحال سندھ میں رہنا ہے۔ پی پی پی سندھ کی سب سے بڑی حکمران جماعت ہے۔ 2018ءمیں بھی وہ شاید حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایم کیو ایم مجبوراً پی پی پی کی سپورٹ بھی کر رہی ہے کیونکہ صوبائی حکومت کی مدد کے بغیر نہ تو بلدیات کو چلایا جا سکتا ہے۔ نہ ہی میئر کوئی کام کر سکتا ہے۔ اس لئے مخالفت نہیں لی جا سکتی، وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد حالات ذرا تبدیل ہو گئے ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہے جو وفاقی حکومت کے پلڑے میں وزن بڑھا دیتی ہے۔ سارے پنڈت کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں انہیں شکست دینا مشکل ہو گا۔ اس طرح سندھ میں پی پی پی کو ہرانا مشکل ہو گا۔ اس لئے ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت کے ساتھ چلنا ہو گا۔ تمام ادارے بشمول پولیس، محکمہ تعلیم، بلدیات، خزانہ، میئر، حیدرآباد اور کراچی کچھ نہیں کر سکے کیونکہ انہیں صوبائی حکومت کی آشیرباد حاصل نہیں تھی۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں بھاگ دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے آصف زرداری نے اور عمران خان نے بلوچستان اور فاٹا کے نومنتخب سنیٹرز سے رابطہ کیا ہے۔ نتیجہ الیکشن والے دن ہی پتہ چلے گا بلوچستان،سندھ کے قریب ہے۔ اس کے بارڈر بھی اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ پنجاب کا کوئی بارڈر اس سے نہیں ملتا۔ موجودہ حکومت جب بنی تو طے پایا کہ ڈھائی سال ان کا وزیراعلیٰ ہو گا اور ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) کا وزیراعلیٰ ہو گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ثناءاللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔ سرفراز بگٹی کہتے رہے کہ ہم مسلم لیگ (ن) میں ہیں۔ لیکن انہوں نے ثناءاللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا اور موجودہ وزیراعلیٰ کو کامیاب کروایا۔ لہٰذا وہاں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت وہاں کی نگرانی نہیں کر رہی لگتا ہے وہ اب زرداری کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ عمران خان کا ان پر اندھا اعتماد کرنا۔ اور یہ کہنا کہ ہم اپنے سارے سنیٹر ان کو دیتے ہیں۔ جبکہ وہاں وزیراعلیٰ زرداری کو فیصلے کا حق دے چکے ہیں۔ وہاں ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی باگ ڈور بھی آزاد منتخب ہونے والے موجودہ وزیراعلیٰ جو صرف 5 سو ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ہے۔ آصف زرداری کو کریڈٹ تو جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ وہ سب پر بھاری ہے غلط ہے عمران خان آج فیصلہ کرے کہ میرے 13 سنیٹر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیں گے تو زرداری کا بھاری پن تو ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زرداری اور عمران کا مشترکہ وزن اس وقت تک قائم رہے گا جب تک یہ دونوں ایک فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔ آصف زرداری کے تمام سنیٹرز عمران خان کے تمام سنیٹرز مل جائیں تو بھی ان کی تعداد مسلم لیگ (ن) کے سنیٹرز کے برابر آتی ہے۔ لہٰدا اصل فیصلہ مسلم لیگ ن اور اس دھڑے کے درمیان فیصلہ تب ہو گا جب فضل الرحمن، ایم کیو ایم، پگاڑا، جماعت اسلامی، جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان کو قوم پرست جماعتیں، آزاد ارکان، فاٹا کے ارکان فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے کسی دھڑلے کا ساتھ دینا ہے۔ لہوذا اصل کنجی ان چھوٹے گروپس کے ہاتھ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد اس وقت پی پی پی جمع تحریک انصاف کے سنیٹرز کے برابر ہے۔حتمی فیصلہ چھوٹے گروپس ہی کریں گے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اینٹی نوازشریف کامیاب ہونگے کیونکہ مولانا فصل الرحمن کبھی بھی اس طرح سے نہیں رہے نہ ہی اچکزئی اینٹی نوازشریف رہے ہیں۔ میں بھی جب زرداری سے مل کر نکلتا ہوں تو میرے اپنے ”ویوز“ ہوتے ہیں میں ان کی عزت، احترام کرتا ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ اس کا مرید، معتقد ہو گیا ہے۔ انہوں نے میری وفاداریاں خرید لی ہیں۔ آصف زرداری کے قریبی حلقوں نے مجھے بتایا ہے۔ ان کے وفد کے بعض ارکان نے بتایا ہے کہ زرداری صاحب نے کھل کر رضا ربانی نے ایک بیان دیا اور اپنی تمام ہمدردیاں، نوازشریف کی جھولی میں ڈال دیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ پر جوڈیشری کا حکملہ اس کو جمہوریت کے لئے نہایت نقصان دہ قرار دیا۔ اس بیان کے بعد زرداری اور ربانی کے راستے تبدیل ہو گئے تھے۔ فرحت اللہ بابر نے بھی یہی لائن اختیار کی۔ ربانی کے خلاف اگرچہ انہوں نے ایکشن نہیں لیا۔ فرحت بابر عرصہ سے پی پی پی کے ترجمان تھے۔ یہ زرداری کے ساتھ ہوتے تھے۔ زرداری نے صوبوں کی تقسیم کے بارے بننے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ زرداری نے ایک جھٹکے سے دونوں حضرات کی چھٹی کروا دی۔ فرحت اللہ بابر براہ راست بول پڑے ہیں جبکہ رضا ربانی نے بالواسطہ نوازشریف کی تائید کر دی ہے۔ اینٹی جوڈیشری، اور اینٹی آرمی ان کا جھکاﺅ دیکھا گیا۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ ان کی یہ سوچ پارٹی سے متصادم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ رضا ربانی، جس طرح خورشید شاہ پر تحریک انصاف والے الزام لگاتے تھے، کہ وہ اندر سے مسلم لیگ کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ وہ بھی مسلم لیگ (ن) کیلئے سافٹ کارنر رکھتے تھے۔ اگر وہ پارلیمنٹ کے تقدس کے اتنے ہی قائل تھے تو اس وقت یہ ذکر کیوں نہیں کیا جب نوازشریف وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اب جوڈیشری اور آرمی کے خلاف کڑا رویہ اختیار کیوں کیا ہے؟

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain