راولپنڈی (سٹاف رپورٹر) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینئر اینکرز، اخبارات کے ایڈیٹروں اور صحافیوں سے گفتگو سوا تین گھنٹے پر مشتمل تھی اور اس میں ہر قسم کے سوالات ہوئے اور آرمی چیف نے بڑی صاف گوئی سے ہر سوال کا جواب دیا۔ ان کے خلاف بھی بہت سی باتیں یعنی اداروں کے بارے میں، آرمی کے بارے میں بعض دوستوں کی شکایات تھیں۔ انہوں نے ہر شکایت کو غور سے سنا اور انہوں نے کہاکہ پاکستان میں عام انتخابات سو فیصد ہوں گے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور زیادہ سے زیادہ 10,15 دن ٹیکنیکل وجوہ کی بنا پر آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ ہم آئین کا احترام کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے جو ہیں ان کے مطابق چلنا ہمارا فرض ہے۔ بس یہ میں کہہ سکتا ہوں۔ چیف آف آرمی سٹاف کا مجموعی طور پر انداز یہ تھا کہ وہ صحافت پر کسی قسم کی پابندی کو نہیں دیکھتے اور انہوں نےکہاکہ خود ان کے بارے میں اور فوج کے بارے میں بعض باتیں بہت سخت چھپتی ہیں لیکن وہ آزادی صحافت کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں اس لئے کہ پاکستان میں اب میڈیا اتنا آزاد ہے کہ اسے روکنا ممکن نہیں ہے۔راولپنڈی (عبدالودود قریشی سے) آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ایڈیٹرز اور اینکر ز کی ملا قات کے دوران صدر سی پی این ای اور چیف ایڈیٹر خبریں ضیاشاہد نے آرمی چیف سے پوچھا کہ جناب اس وقت ملک میں عجیب صورتحال ہے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنے خلاف ہونے والے عدالتوں کے فیصلے نہیں مانتے جبکہ سابق وزیراعظم جناب نواز شریف اعلان کر چکے ہیں کہ میرے خلاف فیصلہ دینے والے پانچ ججوں کو کٹہرے میں لائینگے۔ محترم اس سے پہلے پاک فوج نے دو مواقع پر الگ الگ طرز عمل اختیار کیا۔ جنرل وحید کاکڑ نے اپنے وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف سے زبردستی استعفے لیے اور پھر نئے الیکشن ہوئے ،دوسری مرتبہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فوج سے اپنی حفاظت کےلئے مدد مانگی، فوج الگ رہی کچھ ججوں نے چیف جسٹس کو معزول کر کے گھر بھیج دیا جبکہ صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینا پڑا اور وزیراعظم نواز شریف کام کرتے رہے اگر موجودہ صورتحال میں اعلیٰ عدالتوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک چلتی ہے تو آپ بطور آرمی چیف کیا کرینگے؟۔ ججوں کو کٹہرے میں لانے والوں کی حمایت کرینگے یا سپریم کورٹ کا ساتھ دینگے۔ جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جواب دیا کہ پاک فوج آئین پر عمل کرے گی اور عدالتوں کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔