تازہ تر ین

بلوچستان سے چئیرمین سینٹ کا نام آیا تو یقین ہو گیا تھا سنجرانی جیت جائینگے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن فری اینڈ فری ہوئے کیونکہ ایم پی ایز سینٹ کو منتخب کرتے ہیں۔ سنیٹرز نے ووٹ دینے تھے جس سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے تھے۔ مسلم لیگی صبح سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی فتح ہے، سمجھ نہیں آتا کہ پاک فوج کے لوگ وردی پہن کر وہاں کھڑے ہوئے تھے؟ یا لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ فلاں کو ووٹ دو۔ یہ تو فضول بات ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی گریپ برقرار نہیں رکھ سکیں۔ صاف لگتا تھا نوازشریف کے حامیوں کی تعداد اسمبلیوں میں زیادہ تھی لیکن ان کے سنیٹرز اتنے نہیں بنے جتنے بننے چاہئے تھے۔ دوسرے مرحلے پر سنیٹرز کی تعداد بھی جمع کر لیں۔ ن لیگ کے ساتھ فضل الرحمن کا الحاق ہے۔ ایم کیو ایم نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سنیٹرز نے کہا ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔ اچکزئی نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔ اسفند یار ولی نے کہا تھا کہ ہم نوازشریف کے ساتھ ہوں گے۔ سب اعلانات کے باوجود یہ نتیجہ نکلا۔ یا تو کچھ ووٹ ٹوٹے ہیں۔ فصل الرحمن کے کچھ ووٹ ٹوٹ گئے۔ جماعت اسلامی کے بڑے بڑے لیڈر سراج الحق، لیاقت بلوچ، فریدپراچہ معلوم نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو گئی ہیں۔ جماعت اسلامی دو سنیٹرز کو مسلم لیگ کی حمایت کرنے کا کیا شوق چڑھا؟ انہوں نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں یو ٹرن لیا۔ آج کی صورتحال میں یہ کرپشن کی بات کرتے رہے۔ نوازشریف کے خلاف پہلی درخواست سراج الحق کی تھی۔ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں؟ حلقہ 120 کی سیاست نے یہ بات ثابت کر دی کہ اب پاکستان میں ملی ٹینٹ کی سیاست اب تحریک لبیک کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جنہیں 8 ہزار ووٹ مل رہے ہیں۔ یا ملی مسلم لیگ، حافظ سعید گروپ کو ووٹ مل رہے ہیں، جماعت اسلامی کو وہاں 500 ووٹ ملا۔ فرشتوں کی بات مریم نواز نے حلقہ 120 میں بھی کہی تھی۔ انہیں نادیدہ لوگ بھی کہتے تھے۔ یہ طعنے فوج کو دیئے جا رہے ہیں، فوج کا اس میں کیا عمل دخل ہو سکتا ہے؟؟ یہ تو سیدھی سیدھی سیاسی رسہ کشی ہوتی ہے۔ یہ لوگپچاس فیصد اس وقت جیت چکے تھے جب پی ٹی آئی خوبصورتی سے بلوچستان کو کھڑا کیا گیا۔ یہ آصف زرداری کی ذہانت ہے۔ عمران خان کی ذہانت ہے۔ یہ بلوچستان کے آزاد گروپ کی ذہانت ہے جنہوں نے اپنا وزیراعلیٰ بھی بنا لیا۔ جسے کل تک کوئی جانتا بھی نہیں گھا۔ زرداری اور پی ٹی آئی نے پہلے کہہ دیا تھا کہ سینٹ کا چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہئے۔ حلفاً میں کہتا ہوں کہ میں نے اس وقت کہا کہ وہ جیت گیا۔ راجہ ظفرالحق بڑے قانون پسند، شائستہ انسان، میرے دوست ہیں۔ مجھے دکھ ہوا کہ انہیں غلط جگہ پر کھڑا کر کے پروا دیا۔ بارے ملک میں کہا جا رہا تھا کہ اب بلوچستان کی باری ہے۔ میں نوازشریف کا مشیر ہوتا تو کہتا آپ حاصل بزنجو کو کھرا کر دیں تا کہ ووٹ تقسیم ہو جاتے۔ سیاستدانوں کی اتنی عمریں ہونے کے باوجود سیاست کی الف، بے سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ الیکشن ہونے سے پہلے ہی مسلم لیگ ہار گئی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی جمع نہیں ہو سکتی۔ آصف زرداری کا ”اوریجن“ آپ نہیں جانتے۔ زرداری قبیلہ اصل میں بلوچ ہے۔ جب زرداری صدر بنا تو اس نے بلوچستان میں جا کر کہا تھا میں بلوچ ہوں اور میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ رضا ربانی کے بعد زرداری کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ بلوچستان کو یہ سیٹ دلواتے۔ رضا ربانی نے سینٹ سے علیحدہ ہونے سے بہت پہلے خورشید شاہ، فرحت اللہ بابر نے نوازشریف کا ساتھ دیا۔ بالواسطہ انہیں سپورٹ کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ تینوں ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ آصف زرداری جو کہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ میں دیکھ لوں گا۔ راحیل شریف کی نوکری ختم ہونے والی ہے۔میں اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ اسی چکرمیں وہ پاکستان سے باہر رہے۔ اب وہ طے کر کے آئے تھے فوج سے رابطے خراب نہیں کرنے جبکہ رضا ربانی اچانک سے بول اٹھے کہ یہ تو بڑی گڑ بڑ ہو گئی۔ فرحت اللہ بابر سفید بالوں کے ساتھ ساری عمر اس تنخواہ پر نوکری کرتے رہے اچانک انہوں نے بھی جھرجھری لی۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ نوازشریف اور آصف زرداری کو دوبارہ ایک لائن میں کھڑا کیا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی فوج کو جمع کر کے نوازشریف کی تحریک کو کامیاب کروایا جائے۔ ایک فضا قائم کی جائے۔ جس پر عمران خان اور زرداری تیار نہیں تھے۔ خورشید شاہ، رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کو ڈانٹ پڑی۔ خورشید شاہ ایک زمانے میں میٹر ریڈر ہوا کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ ان کے پاس اتنی دولت کیسے آئی۔ ان کا سکر کے بڑے علاقے پر کنٹرول ہے۔ ان کے لئے مشہور تھا کہ وہ نوازشریف کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اس لئے خود آصف زرداری جمہوریت کی خاطر نوازشریف کو طاقت دینے میں لگے ہوئے تھے۔ حج سکینڈل میں سب سے بڑا ہاتھ اس شخص کا تھا جس کو انہوں نے مکہ میں سیٹل کروایا ہوا تھا۔ جہاں جہاں سے پیسے مل رہے تھے۔ وہ حاصل کر رہے تھے۔ صرف وہ اپوزیشن لیڈر نہیں تھے۔ متحد اور مضبوط پاکستان کے لئے، میری تو خواہش تھی کہ چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہئے خواہ وہ حاصل بزنجو ہو یا صادق سنجرانی۔ نوازشریف کو عقل ہوتی تو دونوں بلوچوںکو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے ان کے ووٹ تقسیم کرتے۔ ان میں ایک بندہ ایسا نہیں جن کو عقل ہو۔ راجہ ظفر الحق اس وقت کہیں نہیں کھڑے۔ وہ نوازشریف کی بی ٹیم ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں ایک نیا نام کل سامنے آتا ہے۔ آج صادق سنجرانی کہاں کھڑا ہوا ہے۔ سینٹ کا چیئرمین قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ بلوچستان کا صوبہ جہاں کے لوگ جنیوا میں بسوں پر لکھوا رہے تھے۔ نیویارک میں اشتہارات دے رہے تھے۔ لندن کی بسوں پرانڈین پیسوں سے نعرے لکھوا رہے تھے۔ آج وہ کہاں کھڑے ہیں۔ صدر کے بعد دوسرا پروٹوکول، اَپر ہاﺅس کا چیئرمین بلوچستان سے لے لیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلوچستان جسے محرومی کا احساس تھا۔ وہ شور مچاتے تھے کہ انہیں حقوق نہیں مل سکے۔ بلوچستان کا بندہ بغیر کسی پشت پناہی کہ وہاں کا وزیراعلیٰ پنجاب آج اس نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی مدد سے اپنا چیئرمین سینٹ بھی منتخب کروا لیا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ جب نوازشریف پر جوتا پھینکا گیا میں نے اس کی سخت مدمت کی تھی۔ جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ مخالفت کے باوجود ایک چھت کے نیچے دوسرے کی دلائل سنتے ہیں۔ اس کے جواب میں اپنے دلائل دیتے ہیں میں نوازشریف کی بہت سی باتوں کو پسند کرتا ہوں۔ وہ عدلیہ کے خلاف جا رہے ہیں میں نے ان پر کڑی تنقید کی ہے۔ وہ میرے پرانے دوست ہیں۔ انہیں تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ میں اس بات کو ہرگز ناپسند کرتا ہوں جو کل ہوا۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے ساتھ ایسی اوچھی حرکت کرنا قابل مذمت ہے۔ جوتا پھینکنا کون سی بڑی بات ہے 500 بندہ بیٹھا ہوا ہے پاﺅں سے جوتا نکال کر پھینک دے۔ یہ عمران، بلاول، فضل الرحمن کسی پر بھی پھینکا جا سکتا ہے۔ خواجہ آصف پر ہونے والے واقعہ کی بھی مذمتکرتا ہوں کسی میں دم ہے تو اس سے بڑا جلسہ کر کے دکھائے۔ یہ بہادری نہیں ہے کہ سیاہی ان کے منہ پر پھینک دی۔ احمد رضا قصوری کے منہ پر بھی کالک پھینکی گئی تھی وہ آج بھی زندہ ہے۔ مریم نواز نے بہادری سے کہا کہ ایسا بہادروں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ کوئی فضل الرحمن کی طرف جوتا پھینکے تو یہی اپنے سینے پر لینا پسند کروں گا وہ سُنی مسلک کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ کیا آپ دینی معاملات کو سڑکوںپر لا کر انارکی پھیلانا چاہتے ہیں میں آخری آدمی ہوں گا کہ فضل الرحمن کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے کے آگے کھڑا نہ ہو جاﺅں۔ میں کسی لیڈر کے خلاف اب قسم کے رویے کی تائید نہیں کرتا۔ میں نے نہال ہاشمی کے الفاظ سنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جیل کے لوگ یہ کہتے ہیں بعد میں انہوں نے بہن اور ماں کی گالیاں دیں اور کہا کہ وہ چیف جسٹس کو یہ کہتے ہیں۔ چیف جسٹس کوئی بھی ہو۔ یا وہ عدالت کا جج ہو کسی کو حق حاصل نہیں کہ اسے ماں بہن کی گالیاں دے۔ اس کے ساتھ بُرا سلوک ہونا چاہئے جو ایسا کام کرے۔تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جسے عرصہ دراز سے احساس محرومی تھا۔ سینٹ ایک ایسا ایوان ہے جس کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیشنل فنانس کا ایوارڈ ہو۔ جتنی بھی بحث ہو رہی ہے۔ سینٹ کا ایک اہم کردار بنتا جا رہا ہے۔ وہاں اگر بلوچستان کا چیئرمین ہو گا تو وہ بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کر سکے گا۔ بلوچستان کی بڑی نمائندگی ایوان میں موجود ہے۔ ان کے ساتھ بہت سے ایسی جماعتیں مل گئی ہیں جو ان کے نظریات کو تقویت دیں گی۔ پی ٹی آئی کے پاس موقع تھا کہ ہم اپنا ڈپٹی چیئرمین کامیاب کروا لیتے۔ لیکن ہم نے وفاق پاکستان، اور محروم طبقہ کو ترجیح دی۔ بلوچستان کے عوام نے ہمارے اس فیصلے کو بہت سراہا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain