تازہ تر ین

بھارت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے

لاہور( رپورٹنگ ٹیم) کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونا اور بھارت کی آبی دہشت گردی دو ایسے اہم قومی مسائل ہیںجن سے پوری قوم کو آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بھارت نے پاکستان میں کالا باغ یا کوئی بھی بڑا ڈیم بننے سے روکنے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور بدقسمتی سے انہیں ہمارے ہاں ایسے افراد بھی مل جاتے ہیں جو ان کا ایجنڈہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنانے کیلئے چھوٹے صوبوں کے اعتراضات ختم کر کے اس ڈیم کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے لہٰذا اسے فوری تعمیر کیا جائے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے ضامن ادارے ورلڈ بینک کو قائل کرے کہ وہ ہمیں اس مسئلہ کو عالمی عدالت میں لے جانے کی اجازت دے۔ ان خیالات کااظہار صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیرز ایڈیٹرز( سی پی این ای) ضیاءشاہد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میںمنعقدہ فکری نشست بعنوان ” کالا باغ ڈیم کی تعمیر۔ ناگزیر ہے“ کے دوران اپنے کلیدی خطاب میں کیا ۔ اس نشست کا اہتمام نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر چیئرمین سندھ طاس واٹر کونسل حافظ ظہار الحسن ڈاہر، محمد یوسف سرور، انجینئر محمد طفیل ملک، عزیز ظفر آزاد، نواب برکات محمود، انعام الرحمن گیلانی، فدا حسین ، رحیم خان اور منظور حسین خان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک ، نعت رسول مقبول اور قومی ترانہ سے ہوا۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت محمد عزیر اور نعت رسول مقبول سنانے کی سعادت شاہد اکبر نظامی نے حاصل کی۔ نشست کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔ضیاءشاہد نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیرنہ ہونا اور بھارت کی جانب سے آبی دہشت گردی کر کے ہمارے پانی کو روکنا دو اہم قومی مسائل ہیں ۔ میں نے ان اہم قومی مسائل کو حل کرنے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ہمارے ہاں موجود ففتھ کالمسٹوں یہ ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اور آبی جارحیت کے مسائل حل کیے بغیر ہی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک رکھنے چاہئیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دو ایسے بڑے مسائل ہیں جن کے حل میں پاکستان کی بقاءوابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1960ءمیں سندھ طاس معاہدہ ہوا جبکہ 1970ءمیں بین الاقوامی واٹر کنونشن منعقد ہوا جس کی سفارشات کو اقوام متحدہ نے منظور کر لیا اور یہ بین الاقوامی قانون بن گیا۔ دنیا بھر میں ماحول کو صاف رکھنا اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ماحولیات میں پینے کا پانی ،نباتات اور آبی حیات کیلئے پانی کی فراہمی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت ہمارے لیے دریاﺅں کا پانی مکمل طور پربند کر دیا گیا، اس سلسلے میںا ٓبی ماہرین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے ہمیں عالمی مصالحتی عدالت جانا چاہئے لیکن یہ ہماری حکومتوں کی کوتاہی ہے کہ وہ اس سے صرف نظر کرتی رہی ہےں۔ اس بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ میں ورلڈ بینک ضامن ہے لہٰذاعالمی عدالت میں جانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ورلڈ بینک کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں اوراس سلسلے میں ہماری درخواست کئی برسوں سے ورلڈ بینک میں زیر التوا ہے اور ہمیں عالمی عدالت میں جانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ضیاءشاہد نے کہااس مسئلہ کر کوئی شخص لیکر عالمی عدالت میں نہیں جا سکتا اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ورلڈ بینک کو قائل کرے کہ وہ ہمیں عالمی عدالت میں جانے کی اجازت دے۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو حل نہ کیا جا سکے۔ ایک دریا دنیا کے کئی کئی ممالک سے گزرتا ہے اور ان ممالک نے باہمی مشاورت سے اس مسئلہ کو حل بھی کیا ہے۔ حکومت ان ممالک کی مثالیں اور ماحولیات کا نام لیکر عالمی عدالت میں جائے تو ہمیں ان دریاﺅں کا 15سے 20فیصد پانی مل سکتا ہے۔ اگر ہمیں راوی، ستلج اور بیاس کا پندرہ فیصد پانی بھی مل جائے تو زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کے علاوہ پانی کی کمی کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق اس وقت زیر زمین پانی میں معمولی مقدار میں خطرناک زہر سینکیا کی مقدار بھی پیدا ہو رہی ہے ۔ آرسینکیا کی وجہ سے کینسر، ہیپاٹائٹس ، جلدی امراض اور گردوں وجگر کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے کہا کہ بھارت دریائے راوی اور ستلج کا سارا پانی کسی صورت بند نہیں کر سکتا ۔ سندھ طاس معاہدہ اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق دریاﺅں کی زندگی، انسانی آبادیوں، گردونواح کی تہذیب، آبی حیات اور زیر زمین پانی کی ری چارجنگ کیلئے پانی جاری رکھنے کا پابند ہے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر از حد ضروری ہے اور اس ڈیم کو فوری تعمیر کیا جائے۔محمد یوسف سرور نے کہا کہ کالا باغ ڈیم ایک کثیر المقاصد پراجیکٹ ہے پاکستان کی معاشی و صنعتی ترقی ، فوڈ سیکورٹی اور ملک کی بقاءکیلئے ناگزیر ہے۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے سونے کی کان ہے ۔ اگر2021ءتک یہ ڈیم تعمیر نہ کیا گیا تو بڑا نقصان ہو گا۔ شاہد رشید نے کہا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کے خلاف کھلی آبی دہشتگردی کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر آبی ماہرین سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ جراتمندانہ اور باوقار موقف اختیار کرے۔ ہمارا سپریم کورٹ آف پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کیس میں سب کی آواز سنیں، آبی ماہرین کو بلائیں اور پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain