اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) قومی احتساب بیورو (نیب) کی بدعنوانی کے خاتمے کی مہم 55 سے زائد اہم اور قدآور سیاسی شخصیات کو عام انتخابات 2018ءسے آﺅٹ کرسکتی ہے۔ 40 کے خلاف معاملات پہلے ہی چل رہے ہیں جبکہ بقیہ 15 شخصیات کے حوالے سے کارروائی عام انتخابات سے قبل شروع کئے جانے کا امکان ہے۔ سیاسی شخصیات خود کو بچانے کے لئے نیب کی پلی بارگین پالیسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکی ہیں۔ دوسری جانب نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ احتساب بیورو کا عام انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ نیب کاکام تحقیقات کرنا ہے‘ تاہم کسی کو اہل یا نااہل قرار دینا عدالتوں کا کام ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس مختلف سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات کی وجہ سے آنے والے عام انتخابات میں ان کے حصہ لینے پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر عاصم حسین‘ شرجیل میمن‘ اکرم درانی‘ سائرہ افضل‘ ڈاکٹر طارق فضل چودھری‘ ریاض حسین پیرزادہ‘ خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ فواد حسین فواد‘ غنی چند اسرانی‘ ضیاءالحسن لنجار‘ دوست محمد‘ آغا طارق‘ سابق صوبائی وزیر رﺅف صدیقی‘ سابق ایم پی اے غلام قادر پلیجو‘ سابق ایم پی اے اعجاز شاہ شیرازی‘ سابق ایم پیاے نواب تیمور تالپور‘ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار‘ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویزاشرف‘ جہانگیر ترین‘ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویزالٰہی‘ چودھری مونس الٰہی‘ علیم خان‘ امیر مقام‘ اسلم رئیسانی‘ آفتاب خان شیرپاﺅ‘ سابق صدر پرویز مشرف‘ ہارون اختر‘ رانا مشہود‘ حنیف عباسی سردار حسین بابک‘ افتخار شاہ‘ اسد قیصر‘ پیر صبغت اللہ راشدی‘ سنیٹر سحرکامران‘ آغا سراج درانی‘ مدثر قیوم ناہرہ سابق ایم این اے‘اظہر قیوم ناہرہ سابق ایم این اے‘ سنیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کے خاندان کے افراد انور سیف اللہ‘ سلیم سیف اللہ‘ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک‘ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا خالد پرویز‘ انوشہ رحمن اور سابق چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹراسماعیل شاہ شامل ہیں۔ ڈاکٹراسماعیل شاہ کے خلاف مبینہ طور پر غیرقانونی طور پر ٹیکسٹ جنریشن موبائل سروسز کو ٹھیکہ دینے کا الزام ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف‘ کیپٹن (ر) صفدر‘ مریم نواز کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب ریفرنسز کی سماعت جاری ہے اور معاملات میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔ میاں نوازشریف‘ خواجہ آصف‘ جہانگیر ترین کے حوالے سے تو فیصلہ آچکاکہ وہ تاحیات نااہل ہیں جبکہ مریم‘ کیپٹن (ر) صفدر‘ اسحاق ڈار کے فیصلے سے ہی ان شخصیات کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا معاملہ واضح ہوسکے گا۔ شہبازشریف‘ فضل داد عباس‘ مسرور انور اور دیگر کے خلاف انکوائری کی منظوری دی جاچکی ہے۔ نیب کو یہ شکایت مشتبہ رقوم کی منتقلی کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک کی جانب سے موصول ہوئیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب نے چاروں صوبوں میں 85 سیاستدانوں پنجاب میں سیاستدانوں کے خلاف 45 سندھ میں سیاستدانوں کے خلاف 13 بلوچستان میں 15 سیاستدانوں اور دیگر شخصیات کے خلاف ریفرنس دائر ہیں جبکہ تحریک انصاف کی ووٹ بیچنے والی خواتین میں نرگس علی‘ دینا ناز‘ فوزیہ بی بی‘ نسیم حیات اور نگینہ حیات اور حضرات بابر سلیم ‘ سمیع اللہ زیب‘ یاسین خلیل‘ امجد آفریدی‘ قربان خان زاہد درانی اور سردار ادریس مایار‘ عبدالحق جاوید نسیم‘ جاوید نسیم‘ معراج ہایوں‘ عارف یوسف‘ فیصل زمان‘ سیمی علی زئی اور وجیہہ الزمان کے خلاف ہارس ٹریڈنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے ان کے مقدمات بھی نیب میں بھوائے جانے کا امکان ہے۔ راحیلہ مگسی ولد محمدفروق لغاری کے خلاف بھی نیب میں انکوائری چل رہی ہے۔ 197 نیب ریفرنسز پچھلے چھ ماہ میں نیب عدالتوں میں دائر کئے گئے ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں موجود مقدمات اور دیگر کے حوالے سے چیئرمین نیب نے کہاتھا کہ انہوں نے 11 اکتوبر 2017ءکو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سختی سے ہدایت کی تھی کہ 179 میگاکرپشن مقدمات کو قانون کے مطابق منتطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے لئے مئی کامہینہ گرمی اور نیب معاملات کی وجہ سے انتہائی سخت رہنے کا امکان ہے کیونکہ نیب کے حکام مئی میں مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراءکے خلاف منی لانڈرنگ‘ آمدن سے زائد اثاثے اور بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات شروع کریں گے۔ نیب کی تحقیقات کا سامنا کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر سائرہ افضل‘ اکرم درانی‘ ریاض حسین پیرزادہ‘ خواجہ سعد رفیق‘ وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسین فواد اور دیگر شامل ہیں۔ نیب میں کسی کے خلاف تحقیقات کا آغاز اس وقت شروع ہوتا ہے جب درخواست جمع کرانے کے بعد اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدائی انکوائری کے بعد ہی تحقیقاتی شعبے کو کیس فراہم کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد ہی بھرپور تحقیقات شروع ہونی ہیں اور پھر ریفرنس تیار کیا جاتا ہے۔ نیب حکام کے مطابق راولپنڈی نیب نے فواد حسین فواد کے خلاف کرپشن سے متعلق دوراس کیس بھی تیار کرلیا ہے جس میں ان پر راولپنڈی میں میگامال کی تعمیرات کا الزام ہے۔ مذکورہ اراضی کی قیمت بارہ ارب روپے بتائی جاتی ہے جبکہ کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیرات اپنے آخری مراحل میں ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک 21 گریڈ کا افسر اتنی مہنگی تعمیرات کیسے کروا سکتا ہے۔ اس حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ راولپنڈی کے وسط میں قائم دس منزلہ عمارت کی ملکیت فواد حسین فواد اور ان کے بھائی کے پاس ہے اور انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر جے ایس بینک سے بلڈنگ تعمیر کیلئے رقم حاصل کی۔ شکایت کنندہ کے مطابق فواد حسین فواد اور ان کے بھائی نے راولپنڈی حیدر روڈ پر رہائشی پلاٹ کے بدلے میں صدر میں جی پی او کے پاس کمرشل پلاٹ حاصل کیا۔ اس حوالے سے نیب نے مزید بتایا کہ وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے بعض دوا ساز کمپنیوں کو رجسٹریشن کرنے اور ادویات کے اضافے کرنے پر خصوصی رعایت فراہم کی۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ پر الزام ہے کہ انہوں نے سپورٹس ڈویژن پاکستان سپورٹس بورڈ کے امور میں متعدد دفعہ بے ضابطگیاں کیں۔ دوسری جانب اکرم درانی پر بطور وزیراختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور پلاٹس کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا الزام ہے۔ شکایت کے مطابق اکرم درانی نے ڈی ایچ اے فاﺅنڈیشن کے سیکٹر ایک سے بارہ اور ایک سے16 میں اپنے منظور نظر دوستوں اور رشتے داروں کے لئے پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں مبینہ کردار ادا کیا۔ جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ سنیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کے خاندان کے افراد انور سیف اللہ، سلیم سیف اللہ کے پانامہ سکینڈل میں 34 آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا الزام ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، چف سیکرٹری خیبر پختون خوا خالد پرویز اور دیگر کے خلاف انکوائری کی منظوری دی گئی تھی۔ اس کو بھی مستقبل میں مزید فعال کرنے اور ان کے خلاف کارروائی آگے بڑھائی جانے کا امکان ہے۔ ملزمان نے مبینہ طور پر بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مالم جبکہ میں 275 ایکڑ سرکاری جنگلات کی اراضی سیمنز گروپ آف کمپنیز کو لیز پر دینے کا الزام ہے۔ جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ دریں اثنا قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بدعنوان عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ کئی سیاسی شخصیات، سرکاری اداروں کے سابق افسران سمیت بہت سے معاملات چل رہے ہیں۔ چیئرمین نیب اس ملک کو کرپشن فری بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیب کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔
الیکشن سے باہر