گھر یا خاندان کو معاشرے کی اکائی کہا جاتا ہے، توعورت اس اکائی کے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کا وجود گھر گرہستی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ عورت ملازمت پیشہ ہویا گھریلو، دونوں صورتوں میں گھر داری کی بھاری ذمہ داری عورت کے ناتواں کا ندھوں پر ہی ہوتی ہے۔مردوں کی نسبت عورت کا کام اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ اسے گھر داری کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری بھی زیادہ اٹھانا پڑتی ہے اور اس کے ساتھ شوہر اور سماجی رشتوں ناتوں کو بھی حسن و بخوبی نبھانا پڑتا ہے۔اگر عورت ملازمت پیشہ ہو،تب بھی اسے گھر داری نبھانا پڑتی ہے۔چنانچہ عورت گھریلو ہویا ملازمت پیشہ، صنف نازک ہونے کے ناطے جب اس کے کندھے پر ذمہ ذمہ داری کا بھاری بوجھ آن پڑتا ہے تو وہ کمزوری اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہونے لگتی ہے۔دور حاضر میں عورتیں ضرورت سے زیادہ مصروف نظر آنے لگیں ہیں۔کچھ کام کی زیادتی اور وقت کی قلت کے باعث عورتوں کو ٹھیک سے آرام کا وقت بھی نہیں مل پاتا ا ور مسلسل دن رات کی مشقت انہیں نڈھال کر دیتی ہے۔ خاتون خانہ اگر صحت مند نہ ہو تو گھر کاسارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔کسی چیز کا ٹھکانا نہیں رہتا، کیوں کہ باورچی خانے سے ڈرائنگ روم تک ہر چیز کی دیکھ بھال وہی کرتی ہے،چاہے ملازمین کا ساتھ ہی میسر کیوں نہ ہو مگر عورت اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔جو عورتیں ملازمت پیشہ ہوتی ہیں ،ان کی ڈیوٹی تو اور سخت ہوتی ہے۔انہیں دہری ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہیں،جبکہ بعض عورتیںاتنی سلیقہ ہوتی ہیں کہ انہیں ہر کام وقت پر کرنے اور چیز کو قرینے سے رکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ اپنا ہرکام عین وقت پر مکمل کرتی ہیں اور اگر ان کا کام اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے ہوجائے تو اسے بہت زیادہ بوجھ محسوس کرتی ہیں۔ چنانچہ کچھ کام کی زیادتی اور پھر آرام و سکون کا وقت نہ ملنے کی وجہ سے خواتین ہر وقت تھکی تھکی سی رہتی ہیں اور یہی ذہنی دباﺅ اور تھکن انہیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں جہاں اور بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے وہیں ڈپریشن کامرض بھی عام ہوگیا ہے۔ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہے،کیوں کہ ان کے فرائض مردوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔بعض خواتین لاپرواہ ہوتی ہیں اور ہر قسم کی فکر سے آزاد رہتی ہیں، جبکہ زیادہ تر خواتین ایسی ہوتی ہیں ،جو خود کو کاموں کے بوجھ تلے محسوس کرتی ہیں۔اگر خواتین یہ چاہتی ہیں کہ وہ تمام بیماریوں سے محفوظ رہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کریں اور اپنے کاموں کو خوش گوار اور اچھے موڈ میں سرانجام دیں۔کام تو زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے نجات زندگی میں ممکن نہیں،کیوں جب تک انسان کی سانسیں چلتی رہتی ہیں ،اس وقت تک زندگی کی ضروریات اورکام بھی چلتے رہیں گے،ان سے نجات تو موت کے بعد ہی ممکن ہے، چنانچہ سب سے پہلی چیز جو زندگی میں ضروری ہے ،وہ یہ ہے کہ خود کو پابندی وقت کا عادی بنائیں۔صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالیں، جب آپ صبح سویرے اٹھ کر کام نمٹائیں گی تو آپ کے پاس بہت سا وقت اپنے لیے بھی بچ جائے گا۔آج کے دور میں زیادہ تر خواتین نے یہ معمول بنالیا ہے کہ وہ فجر کی نماز پڑھ کے یا پھربچوں کو سکول بھیج کر دوبارہ سو جاتی ہیں اورپھر جب دس،گیارہ بجے جاگتی ہیں تو آدھا دن نکل جاتا ہے اوراس کے بعد کاموں کا ایک پہاڑ سر پر محسوس ہونے لگتا ہے،جس کے نتیجے میں وقت کی شدید کمی اور پھر دباﺅ بڑھتا جاتا ہے کہ بچوں کے سکول یا کالج سے آنے سے پہلے کھانا بھی تیار کرنا ہے اور سب کام بھی کرنے ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ساتھ دو یا تین کام جھنجھلاہت کا سبب بنتے ہیں۔مستقبل کی ماﺅں میں ڈپریشن بچے کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ایسے بچوں میں ڈپریشن کا مرض بچپن سے ہی مورثی طور پر شامل ہوجاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ خود کو پرسکون رکھیں اور کام کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور دیگر ہلکے پھلکے مشاغل پر بھی توجہ دیں،اچھی خوراک کا استعمال کریں تاکہ کام کی زیادتی کے باعث بہت تھکن محسوس نہ ہو۔ مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ خاتون خانہ کے ساتھ فرصت کے لمحات میں ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں اور اپنے کاموں کا تھوڑا بوجھ خود اٹھائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ساتھ ہی ان کو خوش رکھیں اور ہلکی پھلکی تفریح کے لیے کہیں باہر لے جائیں،تاکہ وہ خود کو پرسکون محسوس کرسکیں۔اگر خاتون خانہ خوش اور تندرست ہوگی تو گھر کا نظام بھی ٹھیک رہے گااور بہت سی پریشانیوں سے بچاجاسکے گا۔