تازہ تر ین

چیف جسٹس کو کالا باغ ڈیم پر بریفنگ خوش آئند مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانا پڑیگا : ضیا شاہد، شاہد خاقان ایک حلقے سے نہیںپورے پاکستان سے نا اہل ہو گئے : کنور دلشاد، چینل ۵ کے مقبول پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بڑی حیرت انگیز خبر ہے اچانک یہ دھماکہ خیز خبر ہے کہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم پر بھی 63-62 کا کلہاڑا چل گیا ہے انہوں نے کاغذات نامزدگی میں بے احتیاطی برتی ہے۔ مجھے تو گردش ایام ہے۔ میرا خیال ہے کہ 35 سال تھوڑے نہیں ہوتے نوازشریف نے پچھلے دنوں کہا کہ پاکستان کو مزید ترقی دینا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے 20 سال اور چاہئیں۔ اگر 20 سال بھی جمع کر لیں تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ ایک تاریخ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کی تاریخ اس طرح بنے گی۔ اگر 55 سال ان کے کھاتے میں چلے گئے۔ میرا خیال ہے ایک دور تھا جو اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ میں پہلا اخبار نویس تھا جس نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی تھی میں چاہتا تھا اس کی وضاحت کچھ باتوں کی ہو جائے آئین تو یہ موجود تھا اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا کافی دیر تک کیس چلتا رہا میرے پاس آج بھی اس کا فیصلہ موجود ہے وہ فیصلہ بڑا گول مول سا تھا۔ جج صاحب نے آخر میں فیصلہ دیا کہ ٹھیک ہے آپ کوئی تجویز دیں کہ 63,62 پر کس طرح سے عمل ہو سکتا ہے ہم نے کیا تجویز دینی تھی ڈس پوز آف ہو گئی لیکن میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اتنے تابڑ تور فیصلے 63,62 کے تحت ہو رہے ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کل تک آج شاہد خاقان عباسی کے بارے میں فیصلہ آ گیا کہ تاحیات نااہل ہیں۔ یہ ایک نہیں دو حلقوں سے لڑ رہے تھے اگر ایک حلقے میں تا حیات نااہلی آ جاتی ہے تو کیا خود بخود ہی دوسرے حلقے کا بھی فیصلہ ہو گیا یا دوسرے حلقے میں ان کو اجازت مل جائے گی۔بیٹے اور بیٹی کو حق حاصل ہے۔ ان کو ہمدردی کے ووٹ بھی مل سکتے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی ذہانت ہے۔ کالا باغ کے سب سے بڑے حامی حالانکہ ان کا تعلق صوبے کے پی کے سے ہے۔
کنور دلشاد نے کہا ہے کہ جس وقت چیف جسٹس آف پاکستان نے کاغدات نامزدگی کو تبدیل کرتے ہوئے حلف نامے میں تبدیل کیا تھا اس وقت بڑے تاریخی ریمارکس تھے انہوں نے کہا تھا کہ اب باقاعدہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ بن چکا ہے اب اگر کسی نے حقائق چھپائے تو ان کے خلاف توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے اور وہ تاحیات نااہل بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی جو ہمارا کاغذات نامزدگی حلف نامہ تھا اس کی خلاف ورزی کرنے پر اپیلٹ ٹربیونل نے فیصلہ دے دیا۔ کاغدات نامزدگی نامنظور کر دیئے۔ جج حضرات نے 62 ون ایف کے تحت، یہ ان کے صوابدیدی اختیارات تھے جو انہوں نے نقطہ نظر اختیار کیا لیکن اس کی بیک گراﺅنڈ دیکھیں۔ شاہد خاقان عباسی کے بارے میں سارا میڈیا جو ہے سامنے آ گیا۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے 2013ءمیں الیکشن کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی کراچی میں جمع کرائے دو جگہ۔ اس کے ساتھ انہوں نے چترال میں بھی کرائے، چترال کے ریٹرننگ آفیسر نے کاغدات تسلیم کر لئے لیکن ان کے خلاف اپیلٹ ٹربیونل میں مخالفین نے درخواست کی۔ اس اپیلٹ ٹربیونل کے سربراہ جسٹس دوست محمد خان جو آج کل چیف منسٹر ہیں خیبر پختونخوا کے انہوں نے ان کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ اب وہ سارے پاکستان میں تاحیات نااہل قرار پائے۔ اسی فیصلے کی روشنی میں انہیں پارٹی کی صدارت چھوڑنا پڑی اب ایک کارکن بن گئے۔ اسی طرح ان کے کراچی میں دو حلقوں میں کاغذات نامزدگی وہ بھی خود بخود ہی مسترد ہو گئے۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ پرویز مشرف کو شاہد خاقان عباسی کے فیصلے کو دیکھا جائے تو یہ راولپنڈی کے اپیلٹ ٹربیونل نے جو فیصلہ کیا وہ درست تھے۔ وہ بھی چترال کے حوالے سے اپیلٹ ٹربیونل تھا۔ اس لحاظ سے شاہد خاقان عباسی ہو گیا۔ فواد چودھری ہو گیا۔ فواد چودھری پی ٹی آئی کے ترجمان ہیں ظاہر ہے ان کا معاملہ بھی جہانگیر والا ہو گیا۔ یہ سارے معاملات بڑے اہم جا رہے ہیں یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے ریمارکس نہیں دیکھے انہوں نے اس کے خلاف اگر کسی نے غلط کام کیا یا تو وہ تاحیات نااہل اور توہین عدالت میں اسے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ یہ صاف ستھری چیزیں سامنے آ رہی ہیں ہمیں اس کی تعریف کرنی چاہئے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آج آپ کی ملاقات ہوئی ہے وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر سے، یہ جو بلدیاتی ادارے کے سربراہ ہیں۔ آپ نے خود کہا تھا کہ 2008ءمیں اپنے دستخطوں سے یہ حکم جاری کیا تھا کہ دو ماہ کے لئے ان کے اختیارات معطل کر دیئے جائیں۔ میں نے انگران وزیراعلیٰ حسن عسکری سے بھی پوچھا اور وزراءسے بھی پوچھا۔ کل اس پر یہ فیصلہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ یہ جو منتخب بلدیاتی ادارے کے سربراہ اور منتخب ارکان جو ہیں ان کو منع کر دیا گیا ہے وہ الیکشن تک کام نہیں کر سکیں گے الیکشن تک۔یہ تو صرف پنجاب میں کیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ الیکشن کمشن کو کہنا چاہئے یا علی ظفر صاحب سے آپ ملے تھے ان کو اپنے گڈ آفسز استعمال کرنے چاہئیں۔ وہ الیکشن سے بھی بات کر گئے ہیں خود بھی کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں علی ظفر سے بات ہوئی۔ دونوں معاملات ممیں کہ گورنروں کو سیاسی کردار ادا نہیں کرنا چاہئے اس سے بھی زیادہ بلدیاتی اداروں کے منتخب ارکان کارکردگی کو سٹاپ کر دینا چاہئے۔ ہمارے اخبار میں لیڈ سٹوری بھی چھپی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ غور جاری ہے اور اس کے لئے کوشش بھی کر رہے ہیں۔ آپ سے ملاقات میں کیا بات ہوئی کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کیا آپ کے خیال میں صرف پنجاب حکومت کا آرڈر جاری کرنا ضروری ہے یا الیکشن کمشن کو چاروں صوبوں کے لئے ایک مکمل آرڈر جاری کرنا ضروری ہے، کنور دلشاد نے کہا کہ میں نے وفاقی قانون و انصاف علی ظفر صاحب سے بات کی تو یہی سب سے بڑا اہم پونئنٹ اٹھایا کہ بلدیاتی اداروں کے میئر اور چیئرمین ہیں ان کا بہت دخل ہوتا ہے40,30 محکمے پر میئر کے ماتحت ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ درست ہے ان اداروں کا کام روکنا چاہئے میں نے ان کو مشورہ دیا کہ 2008ءمیں مجھ پر دباﺅ پڑا تھا تو ہم نے الیکشن کمیشن کی منظوری سے تمام ادارے جتنے بھی ناظمین تھے سب کو غیر فعال قرار دے دیا تھا۔ ظاہر ہے جب الیکشن کمشن کا جب حکم ہوتا ہے تو ہم نے ان کو غیر فعال قرار دے دیا تھا۔ پھر ازخود الیکشن کمشن نے نوٹس لیا تھا صدر، وزیراعظم کا کوئی دباﺅ نہیں تھا۔ انہوں نے اس تجویز کو درست قرار دیا میں اس بارے میں الیکشن کمیشن سے بات کروں گا، یہ علی ظفر نے نوٹ کر لیا ہے۔ ایک اور اہم بات پھر میں نے ان سے کہی کہ ہم کوشش بہت کر رہے ہیں جس بیلٹ پیپر پر لوگ ووٹ کاسٹ کرنے جاتے ہیں۔ اس میں ناپسندیدگی کا کالم ہونا چاہئے کہ جہاں اگر کوئی ووٹر کسی کو بھی ووٹ نہیں ڈالنا چاہتا تو وہ کہہ سکے کہ میں کسی کو ناپسند نہیں کرتا۔ 2013ءکے انتخابات میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا لیکن بہرحال الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر جب چھپنے کے لئے گیا تو یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ یہ کہانی پراسرار تھی۔ کل عدالت میں اس سلسلے میں ایک درخواست بھی دائر کی جا رہی ہے۔ علی ظفر صاحب نے اس سے بھی اتفاق کیا ہے اور میں اس سلسلے میں الیکشن کمیشن میں مشاورت کرتا ہوں۔ضیا شاہد نے کہا کہ کتنے ایسے چیف الیکشن کمشنر ہیں جن کو میں نے خود اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بریفنگ میں بلائے تھے ان سے سوال و جواب ہو سکتے تھے۔ ہمارے چیف الیکشن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ انہوں نے ایک بھی ایڈیٹرز سے بریفنگ میں بات چیت کی ہو۔ ہم سب کا مقصد الیکشن کمیشن کے کام کو آگے بڑھانا ہے یہ الیکشن کمیشن اب یہ تمام اخبار والوں کے لئے کیوں شجر ممنوعہ ہو گیا ہے۔ کنور دلشاد نے کہا کہ بہت سے پرانے الیکشن کمشنر کے انٹرویو کئے ہیں۔ ہم بھی ہر ہفتے الیکشن کمیشن کی بریفنگ کرواتے تھے۔ یہ بات ہونی چاہئے ہم آپ کی بات کے توسط سے یہ بات کریں گے کل میں بھی ان سے درخواست کرتا ہوں کہ بعض اہم معاملات ہو گئے ہیں۔ بعض متضاد فیصلے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ آپ پریس بریفنگ میں صحافی حضرات کو مدعو کریں۔
چیف جسٹس نے بجا طور پر ایک تفصیلی بریفنگ لی ہے۔ شمس الملک صاحب کی میں بات کر رہا تھا یہ واپڈا کے چیف تھے ان کا تعلق صوبہ سرحد سابقہ سے اور آج کے خیبر پختونخوا سے ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلے دور میں وہ نگران وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں خیبر پختونخوا کے الیکشن کے دوران میں یہ گزارش کرنا چاہتا تھا کہ آج انہوں نے بھی کوئی گھنٹے پون گھنٹہ بریفنگ دی ہے اور یقینا انہوں نے بڑی مفید باتیں کیں۔ معزز پٹھان قبیلے سے تعلق رکھنے کے باوجود خود انہوں نے ہمیشہ سے جب وہاں سے عبدالولی خان کی آوازیں اٹھتی تھیں کہ اگر کالاباغ بنا تو ہم اسے بم سے اڑا دیں گے اس وقت شمس الملک صاحب نے بہت کھل کر کہا کہ یہ پاکستان کے لئے ضروری ہے اور اس سے ہر گز ہرگز خیبرپختونخوا اس وقت کا صوبہ سرحد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آج بھی انہوں نے بڑی تفصیل سے بات کی اور سابق چیف جسٹس صاحب (جو نگران وزیراعلیٰ ہیں) نے مددگار کے طور پر ایکسپرٹ کے طور پر اعتزاز احسن کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے لیکن وزیرداخلہ بھی رہے علمی ادبی شخصیت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی موجودگی قابل عمل ہو گی اور معاف کیجئے گا چھوٹا سا آدمی نہیں ہوں لیکن کالا باغ ڈیم پر ایک عمر گزاری ہے جو 7,6 سال میں نے لاہور ہائی کورٹ میں کیس لڑا تھا اس کا کیا حشر ہوا تھا میں اب یہ کہوں گا کہ جتنی کمیٹیاں چیف جسٹس صاحب نے کہی ہیں بہت اچھی بات ہے۔ مشاورت ہونی چاہئے، میں نے زیادہ قابل عمل فارمولا دے کر آخر دور میں رٹ کی تھی علی ظفر بھی اس میں میرے وکیل تھے اس میں میں نے کہا تھا اس وقت کے چیف جسٹس صاحب سے کہ کالا باغ ڈیم کا معاملہ پھنس جاتا ہے کیونکہ صوبوں میں احتلاف ہے شہباز شریف نے بھی یہی کہا ہے۔ پاکستان کا اس میں بڑا نقصان ہے۔ دریائے سندھ پاکستان کا بہت بڑا دریا ہے اس میں دریائے سوات اور قابل بھی آ کر ملتے ہیں اس میں بھی ایک ڈیم نہیں ہے اور اوپر سے جو پانی چلتا ہے جا کر سمندر میں گر جاتا ہے اگر میں نے نہیں کہا فلاں کو پانی دو فلاں کو نہ دو آخری ڈیزائن جو بنے ہیں واپڈا نے ختم کر دیا تھا کہ دائیں طرف یا بائیں طرف نہریں نکالی جائیں اس وقت یہ تجویز دی گئی تھی کہ کالا باغ ڈیم کو اس وقت بھی کہا گیا کہ نام پر مخالفت ہو چکی ہے اسے پاکستان ڈیم کا نام دیا جائے۔ کیونکہ یہ پاکستان کے لئے ہے۔ دوسرا یہ کہا گیا کہ اسے ”کیری اوور‘’ ڈیم بنایا جائے۔ ”کیری اوور ڈیم“ یہ ہوتا ہے کہ آپ پانی روک لیں کوئی نہر نہ نکالیں اور یہ ظاہر ہے ارسا جس میں چاروں صوبوں کے نمائندے اس میں ہیں۔ ارسا کا ادارہ اوپر ہیڈ کرے فیصلہ کر دے کب اور کتنا پانی چھوڑنا ہے۔ آخری فیصلہ وہ کوئی سی کمیٹی میں نہیں ہو گا آخری فیصلہ خود چیف جسٹس نے کیا کہ ثالثی کے لئے تیار ہوں اگلے ہی دن خورشید شاہ نے کہہ دیا کہ ہمیں کوئی ثالثی کی ضرورت نہیں، میں نے یہ کہا کہ پاکستان میں کے آئینی میں ایک ادارہ جس کو کونسل آف کامنر انٹرسٹ جسے مشترکہ مفادات کونسل، وزیراعظم اس کا سربراہ ہوتا ہے اور چاروں صوبوں کے چیف منسٹر اس کے ارکان ہوتے ہیں۔ صوبوں کی مشاورت سے یہ کام ہو سکتا ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain