تازہ تر ین

بھارت سے اپنے حصے کا پانی لینے کے لیے پاکستان مضبوط ٹیم بھیجے ،ورلڈ بنک انکار نہیں کر سکتا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی تجربہ کار وزیرخارجہ ہیں وہ پہلے وزیرخارجہ تھے جنہوں نے خود اس منصب سے استعفیٰ دیا تھا انہیںکسی نے نکالا نہیں ہے۔ یہ بھی چیز ظاہر کرتی ہے کہ

وہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنے والے۔ وزیراعظم نے جو ٹیم بنائی ہے اس میں وزیرخارجہ اور وزیردفاع ان کے انتہائی اعتماد کے بندے ہیں۔ پرویز خٹک وزیراعلیٰ رہے خیبر پختونخوا کے اور افغان بارڈر سے دہشتگردی کی بڑی مداخلت رہی۔ اور افغان حکومت امریکہ کو ڈومور کے لئے اکساتا رہتا ہے۔ حالانکہ افغان حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ 60 فیصد علاقوں پر طالبان کا قبصہ ہے۔ اور افغانستان سے پاکستان کے بارے میں کبھی خیر کی خبر نہیں آئی، اس اعتبار سے آج کی صورت ہے اس میں سب سے زیادہ فوکس افغانستان کے ساتھ صورت حال، امریکہ اور بھارت کے ساتھ صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہو گا۔ عمران خان نے انڈیا اور کشمیر کے بارے میں رٹی رٹائی تقریر نہیں کی۔ وہ بہت ہی محتاط چل رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے آفر کی ہے خود پیش کش کی ہے کہ آئیں مل کر بیٹھیں اور دونوں ملکوں کے معاملات اور دونوں ملکوں کے لوگوں کا اس میں مفاد ہے کہ مل کر تنازعات حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اگر یہی صورت حال رہی تو پھر اتنے وسائل ہی نہیں بچتے اور اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ عوام کے مسائل پر توجہ دی جا سکے۔ یہ ایک بڑی مفید بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ صرف ایک مرتبہ کوشش ہوئی تھی اور وہ کوشش تھی مرار جی ڈیسائی کے دور میں اور اس دور میں ایک کوشش ہوئی تھی بھارت کی طرف سے کہ بات چیت کے ساتھ معاملات حل کئے جائیں۔ پھر دوسری کوشش اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوئی تھی جب وہ لاہور آئے تھے اور انہوں نے کوشش کی تھی اور پھر میں خود بھی پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ گیا اور جہاں بھارتی وزیراعظم کی پاکستانی صدر کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
آج 8 گھنٹے کی ملاقات ہوئی ہے اور جس میں وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھ شاہ محمود قریشی اور وزیردفاع پرویز خٹک بھی شامل تھے۔ لگتا ہے کہ بہت سی تفصیل کے ساتھ آرمی چیف اور ان کے ساتھیوں نے اپنا نقطہ نظر بھی دیا گیا ہو گا اور بریفنگ بھی ہوئی ہو گی۔ بہت ڈیپ ان سائڈ بریفنگ ہو گی تو آپ کے خیال میں ایسے کون سے پاکستان کی سرحدوں کے گرد انڈیا، افغانستان ہے، کشمیر ہے، پھر امریکہ سے تعلقات ہیں تو کیا ایسے معاملات ہوئے ہوں گے جن کے بارے میں اتنی تفصیلی بریفنگ کی ضرورت پڑی۔
بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر نے کہا کہ آپ نے جن نکات کا ذکر کیا ہے یہ سارے ہی اپنی جگہ اہم ہیں۔ میرے خیال میں ایک تو مجموعی طور پر بتایا گیا ہو گا کہ ہماری سرحدوں کی صورت حال کیا ہے۔ ہماری دفاعی پوزیشن کیا ہے اور ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور اس کے ساتھ زیادہ چیز میرے ذہن میں آ رہی ہے اور آج ہی میں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو ریکارڈ کروایا ہے وہ امریکہ سیکرٹری آف سٹیٹ آ رہے ہیں اور اسکے ساتھ جنرل فیل بھی آ رہے ہیں جو اس خطے میں افغانستان میں موجود نیٹو افواج سے ہیں اس حوالے سے اس کے ذمہ دار ہیں۔ میرے خیال میں یہ مجموعی صورت حال کے تناظر میں یہ بھی ذکر بھی خصوصی طور پر کیا گیا ہو گا کہ امریکہ کی ہم سے کیا ڈیمانڈ ہو سکتی ہیں اور ہمارا قومی موقف کیا ہونا چاہئے کیونکہ اس موقع پر آپ نے تو کوئی غلطی کر لی تو حالات پاکستان کے ناموافق ہو سکتے ہیں اور اس میں واپس آف امریکہ سے بات کی وہ یہاں بھی دہرا دیتا ہوں کہ ان کی ڈیمانڈز میں کوئی نئی چیز نہیں ہے بار بار وہی بات ہو گی کہ آپ پورے ناردرن شمالی علاقوں میں لشکر کشی کر دیں مسائل کی پروا کئے بغیر اور بقول ان کے جو حقانی نیٹ ورک کے ایلی منٹس ہیں ان کو یہاں سے مار بھگائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان کا جو سرکاری موقف ہے۔ وہ بالکل درست ہے کہ یہاں جو افغان مہاجرین ادھر بیٹھے ہوئے ہیں ان کو واپس لے جائیں تا کہ یہ روز کا ٹنٹنا ختم ہو جائے کیونکہ 55 مہاجر کیمپوں میں آ کر اکا دکا بندہ آ کر اپنے قبائلیوں کے ساتھ پناہ لے لے تو اس کا سراغ لگانا بہت مشکل ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی خاص جگہ ہے تو آپ ہمیں بتائیں ہم اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ آپ ہمیں کیوں نہیں بتاتے۔ دوسری چیز ہے کہ بقول آپ کے اگر یہاں سے حقانی نیٹ ورک کے لوگ افغانستان میں لڑنے کے لئے جا رہے ہیں تو انہیں روکنا صرف پاکستان کی ذمہ داری تو نہیں۔ آپ کی جو افواج افغانستان میں بیٹھی ہیں وہ ان کا راستہ کیوں نہیں روکتی۔ وہ کیوں ان کو مداخلت کی اجازت دیتی ہیں ظاہر ہے کہ یہ ہے اس میں خفیہ راستے ہیں جن سے کوئی بھی شخص گزر کر چلا جائے پورا بریگیڈ بھی گزر کر چلا جائے تو پتہ نہیں چلتا۔ آپ کو معلوم ہے کہ 3 بڑی طاقتوں کا دو کا کم از کم بن چکا تیسری کا بننے کے قریب ہے۔ ان حالات میں وہ بار بار نہیں دہرائیں گے کہ جناب آپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لیں اور آپ ان کو یہاں سے مار بھگائیں اور پاکستان کا موقف درست ہے کہ ہم افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کو الٹا کر اپنے صحن میں کیسے لے آئیں اور اپنے ہی قبائل کے خلاف لشکر کشی کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ غیر حقیقی مطالبہ ہے ہم سے۔
ضیاشاہد نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جس طرح کی آج بریفنگ ہوئی ہے 8 گھنٹے پر مشتمل کافی تفصیلی بریفنگ ہے اس کے سلسلے میں اینکر پرسن پوچھ رہی تھیں کہ عام طور پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے نوازشریف کے دور میں بھی دو ایک مرتبہ اچھی تفصیلی بریفنگ ہوئی تھی لیکن آپ کو زیادہ معلومات ہوں گی کیا فرق نظر آتا ہے کہ نئی حکومت کے جو عزائم ہیں اور جو طریق کار ہے کام کا اس کا کس حد تک مختلف نظر آتا ہے سابقہ وزیراعظم جناب نوازشریف کے طریقہ کار سے۔
بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر نے کہا ہے کہ اس میں واضح چیز تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا تھا کہ ہم جو قومی ادارے میں ہم ان کے تعاون سے اپنی پالیسیاں طے کریں گے۔ امریکہ، برطانیہ میں بھی باقی جگہوں میں کہ اداروں کی ان پٹ لی جاتی ہے ان سے بریفنگ لی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں آپ اپنے مقاصد کا تعین کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بنیادی جز تو یہ ہے کہ عمران خان نے دلچسپی لی اور انہوں نے جو بریفنگ دی ان کو سمجھایا گیا ہو گا کہ ہماری مشکلات کیا ہیں، کمزوریاں کیا ہیں۔ ہماری مضبوطی کیا۔ کون سا کام کر سکتے ہیں کون سا کام ہمارے لئے ناممکن ہے کیونکہ ابھی چند روز میں ان کی ملاقات ہونے والی ہے سیکرٹری آف سٹیٹ سے اور جنرل کو ساتھ لے کر آ رہے ہیں ظاہر ہے کہ وہ اپنی ڈیمانڈوں کا ڈھیر لے کر آئیں گے تو ہمیں ان کے ساتھ ڈیل کرنا ہے ڈپلومیٹلی۔ ہم ان کو بلنڈلی جواب تو دے نہیں سکتے ہمیں اپنی مشکلات کا اظہار کرنا پڑے گا جہاں ہم کام کر سکتے ہیں اس میں شاید تعاون بھی تھوڑا بہت کیا جائے جہاںممکن نہیں انہیں سمجھانا پڑے گا۔ اصل میں ان ساری باتوں کا وزیراعظم کو علم ہونا چاہئے تا کہ وہ غلط کمنٹمنٹ کر کے جال میں نہیں جائیں۔ مجھے بنیادی فرق یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ اداروں کی طرف سے جو بریفنگ ہے اس کو بھی اہمیت دیتے ہیں اس لئے اتنا وقت لگایا ہے تا کہ وہ مکمل طور پر سمجھ سکیں۔
ضیا شاہد نے کہا ہے میرا دعویٰ تو نہیں کہ فارن افیئرز کے معاملات کو بخوبی سمجھتا ہوں لیکن ہمارے سامنے بہت سی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے کہ ہم کوئی مداخلت نہیں کر سکتے یا کوئی بین المملکتی معاہدات موجود نہیں ہیں کیونکہ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ کس طرح سے سیٹل ہوا تھا اس کا مطلب ہے کہ جو معاملہ سیٹل کرنا ہوتا ہے وہ کر لیا جاتا ہے۔آبی مسئلے پر پاک بھارت مذاکرات ناکام ہونے پر انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ ہمارے اعتراضات کو مسترد کرتا آیا ہے۔ انڈس واٹر معاہدے میں 3 دریاﺅں کا پانی انڈیا اور 3 کا پاکستان کے حصے میں آیا ہے، معاہدے میں درج ہے کہ پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے بات کرنی پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ میں جو میری رٹ دائر ہے اس میں زور دیا گیا ہے ستلج، راوی و بیاس میں ہمارا پانی مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ انڈیا یہاں چناب پر اپنے 2 پراجیکٹ مکمل کرنے کے حوالے سے آیا ہوا ہے۔ اس پر پاکستان کا موقف ہے کہ معاہدہ ان کاموں کی اجازت نہیں دیتا۔ جب ہم بھارت کی تجاویز پر اعتراض کریں گے۔ تو پھر یہ معاملہ عالمی عدالت میں جائے گا۔ ہمیں اس کی تیاری کرنی چاہئے۔ انڈیا کا ورلڈ بنک پر اثرورسوخ سے، ہم اس کے پاس شکایت لے کر جاتے ہیں وہ معاملے کو عالمی عدالت میں ریفر کرنے کے بجائے خود ہی انکار کر دیتا ہے حالانکہ وہ گارنٹر ہے عدالت نہیں۔ ہماری کوئی تگڑی ٹیم جائے وہ ورلڈ بنک سے کہے کہ وہ ”نو“ نہیں بول سکتا۔ میری رٹ ستلج و راوی میں پانی نہ چھوڑنے کے مسئلے پر ہے، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے اور گندا بھی ہو چکا ہے۔ بھارت نے دونوں دریاﺅں میں لکڑی کے شیلٹر ڈال کر پانی بند کیا ہوا ہے، جب ادھر زیادہ پانی ہو جائے تو اچانک چھور دیتا ہے جس کی وجہ سے یہاں سیلاب آتا ہے۔ سیلاب میں زیادہ تبالی کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ دریاﺅں میں سارا سال پانی نہیں ہوتا اس لئے وہاں لوگوں نے تعمیرات بنا رکھی ہیں پھر جب اچانک پانی آتا ہے جس کی توقع نہیں تھی تو سب بہا کر لے جاتا ہے۔ میری رٹ چھوٹی نہیں یہ ملک کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے کہ دریاﺅں میں پانی چھورو۔ رٹ میں لکھا ہے کہ 72 ہزار ایک مرتبہ اور ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد ماہی گیر ایک دفعہ بے روزگار ہوئے کیونکہ وہ دریا کنارے جھونپڑے بنا کر بیٹے ہوئے تھے لیکن جب پانی نہیں ہو گا تو مچھلیاں کہاں سے پکڑیں گے۔ ڈی پی او رضوان گوندل اور خاور مانیکا کے معاملے پر چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے پر انہوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس کی حقیقت آشکار ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی لاہور میں چھوڑی نشست پر ابرار الحق اور ولید اقبال سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، حتمی فیصلہ تو عمران خان ہی کریں گے۔ سعد رفیق پر جتنے کرپشن کے الزامات ہیں اگر پھر بھی عوام ان کو سر پر بٹھانا چاہتی ہے تو پھر ان کی مرضی ہے۔
چینل ۵ کے بیوروچیف نیویارک محسن ظہیر نے کہا ہے کہ پاک امریکہ کے درمیان ملزموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں، اگر ہوتا بھی تو کسی شخص کو امریکہ سے بلانا آسان نہیں ہے۔ وہ سیاسی پناہ حاصل کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ سے حسین حقانی کو واپس لانے کے لئے راستے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے، اب جب نیب تلاش میں نکلے گی تو اسے رکاوٹ کا علم ہو گا۔ بظاہر حسین حقانی کی واپسی اتنا آسان کام نظر نہیں آتا۔ یہ ممکن ہے کہ اگر اسلام آباد موثر انداز میں واشنگٹن سے رابطہ کرے تو کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ بھی حل ہو گیا تھا۔ انہوں نے ممید کہا کہ حسین حقانی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر اکاﺅنٹ پر پوسٹ کیا ہے کہ ”لگے رہو منا بھائی“ ”ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہیں“ وہ اس طرح کہ کمنٹس ٹویٹ کر رہے ہیں۔ حسین حقانی کی واپسی کا دارومدار اس چیز پر ہے کہ معاملے کو کس طرح چلایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ پاکستان آ رہے ہیں ان کے ساتھ ایک جرنیل بھی ہے، پاکستان کو ان کے سامنے حسین حقانی کی واپسی کا معاملہ اٹھانا چاہئے۔
نمائندہ پاکپتن محمد علی نے کہا کہ ڈی پی او اور خاور مانیکا معاملے کی شروعات 5 جولائی کو ہوئی، جب ان کی بیٹی مبشرہ اور بیٹا ابراہیم لاہور سے آئے اور دیپالپور کے قریب آ کر دربار بابا فرید کی جانب پیدل چلنے لگے اس وقت ان کو پولیس نے روکا، خاور مانیکا نے ڈی پی او رضوان گوندل سے شکایت کی تو ان کی آپس میں تلخی ہوئی، پھر اس وقت وہاں کے انچارج اسلم کو معطل کر دیا گیا اور انہوں نے خاور مانیکا سے معذرت بھی کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاور مانیکا گاڑی پر جا رہے تھے ناکے پر پولیس نے روکا یہ نہیں رکے، تعاقب کر کے پولیس نے روکا تو تلخ کلامی ہوئی۔ یہاں غلطی خاور مانیکا کی تھی انہیں ناکے پر گاڑی روکنی چاہئے تھی۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain