تازہ تر ین

وزیراعظم عمران خان گیم چینجر ؟

نئی دہلی (ٹرینڈی ایڈیٹر رپورٹ) ہمارے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور قابل احترام صحافی کلدیپ نیئر ایک ہفتے میں باری باری دنیا سے چلے گئے۔ ہندوستان ٹائمز کے کالم نگاروکرم مہتانے لکھا ہے ان دوں کی جلتی ارتھی کے درمیان میں پڑوسی ملک پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کا جنم ہے۔ عمران خان نے اٹل جی کے دیہانت کے اگلے روز وزارت عظمی کاحلف اٹھایا، بادی النظر میں ان تینوں واقعات میں کوئی تال میل نہیں تاہم اگر پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں دیکھا جائے تو تینوں کے درمیان تعلق بنتا ہے۔ اٹل جی اور کلدیپ نیئر نے زندگی بھر برصغیر کے بٹوارے کے بیانیہ کیخلاف مزاحمت کی، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اگردشمنی نہیں تو کم ازکم شکوک کا شکار ہوئے۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعدپہلے خطاب میں کہا ماضی کاسخت رویہ مسترد کر دیا۔ بھارتی کالم نگار مزید لکھتا ہے ان تینوں کے ساتھ میرے تعلقات رہے۔اٹل جی سے بلواسطہ تعلقات رہے،وہ جب وزیرخارجہ بنے تو میرے والد خارجہ سیکرٹری تھے۔ کلدیپ نیئر اور عمران کے ساتھ میرے براہ راست تعلقات رہے۔ مہتا اور نیئر خاندانوں میں برسوں سے دوستی ہے، میں 1977ءمیں کلدیپ کاکا کا تحقیقی معاون تھا، جب انہوں نے ایمرجنسی پر کتاب لکھی جبکہ برطانوی یونیورسٹی میں عمران خان کاہم جماعت تھا۔ میرے والد 1977ءمیں اٹل جی کے ہمراہ پاکستان دورے پر گئے جو ان کا اس حیثیت سے پہلاغیرملکی دورہ تھا۔ واپسی پر میرے والد نے بتایا کہ اٹل جی نے پاکستانی عوام اورمزاکرات کاروں پر گہرا اثر چھوڑا، اس مشہور زمانہ دورے کی تفصیلات میرے والدکی سوانح عمری سمیت مختلف کتابوں میں بیان کی گئی ہیں تاہم یاددہانی کیلئے سب سے اہم امریہ ہے کہ اٹل جی نے اس متحد میڈیا کو نہتا کر دیا جونہ صرف بھارتی وزیر خارجہ بلکہ اس شخص کو سننا چاہتے تھے جو اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنا سنگھ کے رکن کی حیثیت سے اکھنڈ بھارت کانعرہ بلندکرتے رہے جبکہ شملہ معاہدے کیخلاف مظاہرہ بھی کیا۔اٹل جی نے ابتدائی کلمات کے دوران ماضی میں پاکستان مخالف جذبات کا اعتراف کرتے ہوئے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات کی پیشکش کی۔ انہوں نے بعدازں ایک مسجد، گردورا اور چرچ کا دورہ کرکے اپنے سیکولرتشخص کا اظہارکیا۔ آغاشاہی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دی گئی ضیافت کے دوران خوبصورت اردو میں برجستہ تقریرکرکے میزبان کو گہنا دیا۔ اٹل جی جانتے تھے کہ وہ بھارت میں اپنے نظریاتی اتحادیوں کے سامنے خطرہ مول لے رہے ہیں، تاہم انہوں نے ماضی کے بیانیہ کے ساتھ چپکے رہنے سے انکار کردیا، جس کا ٹھوس نتیجہ نکلا۔ اٹھارہ برسوں بعد کرکٹ کے تعلقات بحال ہوئے، کراچی اور ممبئی میں قونصلیٹ دوبارہ کھل گئے جو 1971ءکی جنگ کے بعد بند ہو گئے تھے جبکہ دریائے چناب پر ہائیڈرو پاور ڈیم بنانے کا معاہدہ ہوا۔ کلدیپ نیئر نے برصغیر کی تقسیم کے وقت المناکیوں کو دیکھا۔ سیالکوٹ میں آباد ان کے خاندان کو بھارت ہجرت پر مجبور کیا گیا، ایسے حالات کا سامناکرنے والے زیادہ تر لوگ ان مشکلات کو نہیں بھولے یا نہیں بھول سکے، معاف نہیںکیا یا معاف نہیں کر سکے جو قابل فہم ہے، تاہم کلدیپ نے اس المیہ کی اہمیت کو کبھی گھٹایا نہ مستقبل بینی کی اپنی سوچ کی راہ میں رکاوٹ بننے دیا۔ وہ تمام عمر اپنے قلم کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام کو برداشت اور تہذیب کے مشترکہ ورثے اورجغرافیہ کی ناقابل تنسیخ منطق کی یاددہانی کراتے رہے۔ انہوں نے پاکستانی صحافی آصف نورانی کے ساتھ مل کر دو شہروں کی کہانیاں لکھیں پھر 1992ءکے بعد بڑھتی ہوئی عمرکے باوجود ہرسال 14/15اگست کی رات واہگہ بارڈر پر شمعیں روشن کرتے اور ہندوستان، پاکستان دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ ان کے انتقال پر پاکستان کی طرف سے جس طرح خراج تحسین پیشں کیاگیا، وہ تصدیق کرتا ہے کہ وہ دونوں طرف کے عوام کے ذہنوں اور دلوں میں سمائے ہوئے تھے۔ اٹل جی کی طرح کلدیپ نے بھی بٹوارے کا روایتی نظریہ قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے برعکس دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے امکانات کو دیکھا۔ اب عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان پرذمہ داریوں کا بوجھ ہے جو انہیں نبھانی ہیں ۔تاہم اگر بطور کرکٹر اور سیاستدان ان کے عوامی بیانات کو دیکھیں تو ان میں کلدیپ نیئر کے نعروں کی گونج دکھائی دے گی۔ عمران چالیس عشروں سے زائد عرصے سے بھارت اور بھارتیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہرعظیم کھلاڑی کی طرح وہ جانتے ہیں کہ پچ پرکی جانے والی مسابقت، یارباشی کے امکانات کوکھا نہیں جاتی، پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں جب ان کی جماعت سب سے زیادہ نشستیں جیت کر ابھری تو اس کے تھوڑی دیر بعد اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے یقین کامل کا اظہارکیا۔ انہوں نے کہا بھارت ایک قدم آگے بڑھائے، پاکستان دوقدم بڑھائے گا۔ ہمارے میڈیا میں سے اکثر نے ان الفاظ کو خالی بیان بازی گردانا، تاہم اگر اٹل جی اور کلدیپ نیئر ہوتے تو وہ ان کے الفاظ کونیا بیانیہ ترتیب دینے کی دعوت سمجھتے۔ تاریخ شک، تنازعات اور وسوسوں میں الجھی اقوام کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، تاہم تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ہیں جب قیادت جرات ،کامل یقین اور بصیرت سے ایسے معاملات کو پلک جھپتے ہی تبدیل کر دیتی ہے۔ اسرائیل/فلسطین تنازع اور کئی عشرے جاری رہنے والی سرد جنگ اس کی دوبڑی مثالیں ہیں۔ 1989ءمیں گورباچوف کی طرف سے سوویت یونین اور سردجنگ کے متعلق پرانے نظریات کو ایک طرف رکھنے کے بعد یورپ کے نئے آرڈرکی ڈرامائی تشکیل سامنے رکھیں۔ اٹل جی اورکلدیپ نیئرنے زندگی بھرایسی قیادت کی خوبیاں دکھائیں۔ میں جانتا ہوں عمران خان میں بھی ایسی خوبیاں ہیں، جس کی روشنی میں پاکستان اور بھارت نیا بیانیہ ترتیب دینے کے امکانات پر غور کر سکتے ہیں۔ گردانا تاہم اگر اٹل جی اور کلدیپ نیئر ہوتے تو وہ ان کے الفاظ کو نیابیانیہ ترتیب دینے کی دعوت سمجھتے۔ تاریخ شک، تنازعات اوروسوسوں میں الجھی اقوام کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، تاہم تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ہیں جب قیادت جرات ،کامل یقین اور بصیرت سے ایسے معاملات کو پلک جھپتے ہی تبدیل کردیتی ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain