اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاکستان میں منگل کو ملک کے 13ویں صدر کا انتخاب ہو چکا ہے۔ آئینِ پاکستان میں 18 ویں ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات خاصے محدود ہوگئے ہیں۔ لہٰذا صدر کے انتخاب کے موقع پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ صدر کے اختیارات کیا ہیں اور صدر کا عہدہ ملک کے لیے کیوں ضروری ہے؟یہ تجویز بھی پیش کی جا رہی ہے کہ صدر کے عہدے کو ختم کر کے کروڑوں روپے سالانہ کا خرچ بچا لیا جائے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے آگاہی ضروری ہے لہٰذا سب سے پہلے صدر کے اختیارات پر نظر ڈالتے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار اعتزاز احسن کے حق میں نہیں ہیں18 ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کے اختیارات بطورِ آئینی سربراہ صدرِ پاکستان کی چند مواقع پر اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے یا اپنی آئینی مدت مکمل کر لے تو صدر ہی اپنی نگرانی میں عام انتخابات منعقد کراتا ہے۔صدر کسی بھی ایسے پورے کے پورے قانون کو یا ا±س کی چند شقوں کو نظرِ ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتا ہے جو ا±س کے پاس پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کے لیے آیا ہو۔تمام وفاقی جامعات کے چانسلر صدرِ مملکت ہی ہوتا ہے۔صدرِ پاکستان پارلیمان کے آئینی سال کے آغاز پر ا±س کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اور ریاست کے رہنما اصول کی یادہانی کرائی جاتی ہے۔صدرِ پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا سزاو¿ں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔ایک عام تاثر ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق کھو چکے ہیں جبکہ یہ حق اب بھی ا±ن ہی کے پاس ہے البتہ اب وہ یہ کام ازخود نہیں بلکہ وزیرِاعظم کی درخواست پر ہی کر سکتے ہیں۔ اب بھی اسمبلی صدرِ پاکستان کے حکم سے ہی تحلیل ہوتی ہے۔صدرِ پاکستان مسلح افواج کے علامتی سپہ سالارِ اعلیٰ ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صدر مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیرِاعظم کے مشورے کے مطابق کرنے کے پابند ہیں اور وہ افواج سے متعلق براہِ راست کوئی احکامات جاری نہیں کر سکتے۔مختلف ممالک کو بھیجے جانے والے سفرا کو حقوق تفویض کرنا اور ملک میں آنے والے مختلف سربراہانِ ریاست کی میزبانی کرنا بھی صدر کا اختیار ہے۔کیا صدرِ پاکستان کا عہدہ ضروری ہے؟صدرِ پاکستان کے عہدے کی ضرورت کے بارے میں وکلا برادری اور اساتذہ تو یکسو ہیں لیکن عوام اِس معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔بعض سمجھتے ہیں کہ اِس عہدے کے پاس کوئی اختیار نہیں تو اسے ختم کر کے صدر کے دفتر سے بچنے والے پیسے کو تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ کسی کی رائے ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت کو 70 سال تک آزمانے کے بعد اب صدارتی نظام کو بھی آزمانا چاہیے جبکہ چند کا کہنا ہے کہ پورے اختیار کے ساتھ اِس عہدے کو برقرار رکھنا چاہیے نہ کہ کٹھ پتلی کے طور پر۔سابق جج اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شاہ خاور سمجھتے ہیں کہ صدر کا عہدہ انتہائی ضروری ہے اور اِسے صرف اخراجات بچانے کی خاطر یا علامتی عہدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ا±ن کے مطابق عہدے کی ضرورت بعض موقعوں پر بہت بڑھ جاتی ہے اور ناگزیر ہوجاتی ہے۔دوسری جانب قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات و عالمی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ یونس کے مطابق پاکستان میں صدر کا عہدہ علامتی ہونے کے باوجود بھی اہمیت کا حامل تو ہے اور اِس سے عالمی سطح پر شناخت واضح کی جاتی ہے لیکن اِسے ختم کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ‘اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ ایسی آئینی ترمیم لائی جانی چاہیے اور صدر کے دفتر کو ختم کرنا چاہیے تو اِس کا آئینی راستہ موجود ہے۔’ڈاکٹر عائشہ یونس سمجھتی ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے یا ا±سے پٹڑی سے ا±تارنے دونوں میں صدرِ پاکستان کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ڈاکٹر عائشہ یونس کے مطابق ترقی یافتہ ممالک بشمول برطانیہ میں اب یہ بحث جاری ہے کہ ایوانِ صدر کے اخراجات میں کمی لائی جائے اور اِس کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جبکہ شاہ خاور سمجھتے ہیں کہ اخراجات میں کمی کے اقدامات پاکستانی ایوانِ صدر پر بھی لاگو ہونے چاہییں۔
