تازہ تر ین

کراچی میں 30گمشدہ بچوں کی لاشیں ملیں،177بازیاب23بدستور لاپتہ

کراچی (خصوصی رپورٹ) گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم روشنی کے مطابق جنوری 2017 سے لیکر رواں سال ستمبر تک ان کی ہیلپ لائن کو 200 بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 177 بازیاب ہوگئے ہیں جبکہ 23 ابھی تک لاپتہ ہیں، جن کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔ روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ پولیس لاپتہ بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے، اس ملک میں اگر بچوں کا جنسی وجسمانی استحصال روکنا ہے، ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنی ہے تو بچوں کی گمشدگی کا سدباب ہونا چاہیے اور اس کی فوری طور پر تفیش ہونی چاہیے۔ سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو 23 گمشدہ بچوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر اظہار برہمی کیا اور آئندہ سماعت پر آئی جی سندھ کو طلب کر لیا۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمشدگی کی 22 ایف آئی آر درج کر لی گئی ہیں اور ایک بچی نورین کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی کرائیم برانچ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 23 میں سے صرف ایک بچے کو بازیاب کروایا گیا ہے، پولیس کی تحقیقات انتہائی سست ہیں جبکہ لاپتہ بچوں کی عدم بازیابی پر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔عدالت نے بچوں کی بازیابی کے لیے پولیس کو تمام جدید ٹیکنالوجی اور آلات استعمال کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔ واضح رہے کہ روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بچوں کی گمشدگی پر ایک آئینی درخواست زیر سماعت ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف رواں سال 30 لاپتہ بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔ لاہور میں دسمبر 1999 میں ایک شخص کی جانب سے 100 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کرنے کے انکشاف کے بعد پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا معاملہ زیر بحث آیا تھا روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لانڈھی، کورنگی زیادہ ہائی الرٹ علاقے ہیں۔ تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر نومولود بچے سے لیکر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتہ ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق 12 سے 18 سال کی عمر کے بچے رن اوے کیٹگری میں آتے ہیں جن اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی یا گھر میں تشدد ہوا تو وہ نکل گئے۔ ان میں کئی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ بھی چڑھ جاتے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain