اسلام آباد(خبر نگار خصوصی)چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ وزیراعظم اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور بنیادی حقوق کی حفاظت ان کے ذمے ہے، وزیراعظم خود جا کر کچی آبادی والوں کی حالت دیکھیں، مجھے وقت بتادیں ساتھ جاکر دیکھ لیتے ہیں، کچی آبادی میں کالے پانی کے نالے بہہ رہے ہیں، یہ رہنے کے لائق جگہیں نہیں ہیں،50لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، 50لاکھ گھر اعلان سے نہیں بن جائیں گے، 50لاکھ گھر بنانے میں وقت لگے گا، کبوتروں کا پنجرہ بنایا جائے تو بھی دیکھا جاتا ہے کتنے کبوتر آئیں گے، کمیشن مقرر کر دیتا ہوں وہ جا کے دیکھ لے گا، 1996سے لے کر اب تک کیا کیا ہے؟ کہتے ہیں تبدیلی آگئی ہے، یہاں سرکاری گھروں کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے، ریٹائرڈ لوگ سرکاری گھروں پر قابض ہیں،عدالت نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات صوبوں کو بھجوانے اور صوبائی حکومتوں کو 4ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس دوران بلوچستان میں کچی آبادیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کچی آبادیوں میں سہولتیں دینا حکومت کا کام ہے، کچی آبادیوں میں بہت نقص ہے،کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسلام آباد سے کچی آبادیاں ہٹانے پر تجاویز دیں، آپ نے ابھی تک اسلام آباد میں کچی آبادیوں کا ڈیٹا نہیں دیا۔جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وزیراعظم سے کہیں کہ ٹائم رکھیں کچی بستیاں دیکھنے چلتے ہیں، دیکھیں کہ وہاں کیا حالت زار ہے، میں تو لاہور میں کچی بستیاں دیکھ آیا ہوں انہیں کہیں جا کر حالت دیکھیں، وزیراعظم خود جا کر کچی آبادی والوں کی حالت دیکھیں، وہ اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، مجھے وقت بتادیں ساتھ جاکر دیکھ لیتے ہیں، کچی آبادی میں کالے پانی کے نالے بہہ رہے ہیں، یہ رہنے کے لائق جگہیں نہیں ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ کچی آبادیوں کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا، وزیراعظم نے 50لاکھ گھروں کا اعلان کیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 50لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، 50لاکھ گھر بنانے میں وقت لگے گا، کبوتروں کا پنجرہ بنایا جائے تو بھی دیکھا جاتا ہے کتنے کبوتر آئیں گے۔جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ کمیشن مقرر کر دیتا ہوں وہ جا کے دیکھ لے گا، 1996سے لے کر اب تک کیا کیا ہے؟ کہتے ہیں تبدیلی آگئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ یہاں سرکاری گھروں کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے، ریٹائرڈ لوگ سرکاری گھروں پر قابض ہیں۔معزز چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وزیراعظم کو جا کر بتائیں، بنیادی حقوق کی حفاظت وزیراعظم کے ذمے ہے، 50لاکھ گھر اعلان سے نہیں بن جائیں گے۔اس موقع پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں کچی آبادی پر قانون موجود ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ مجھے سندھ میں کچی آبادیاں دکھائیں، شرط یہ ہے کہ آپ کا وزیراعلی میرے ساتھ جائے گا، یا کہہ دیں کہ کچی آبادی والے کیڑے مکوڑے ہیں، یا کہہ دیں کچی آبادی والوں کے بنیادی حقوق نہیں ہیں۔عدالت نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات صوبوں کو بھجوانے اور صوبائی حکومتوں کو 4 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
