لاہور(شہزاد فراموش)پاکستان کی مشہور گلوکارہ منور سلطانہ 1925ءمیں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیام پاکستان سے پہلے فلم” مہندی “سے ہوا تھا۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی۔انہیں پاکستان کی پہلی فلم ” تیری یا د“کے لئے بھی پس پردہ گلوکاری کا اعزاز حاصل تھا۔ پاکستان کے ابتدائی زمانے میں منور سلطانہ نے متعدد فلموں کےلئے گلوکاری کا مظاہرہ کیا جن میں ”پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان،بے قرار،دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری، معصوم اور لخت جگر“ کے نام سرفہرست ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ابتدائی قومی نغمہ ”چاند روشن چمکتا ستارہ رہے“ بھی انہی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ منور سلطانہ نے گائیکی کے عروج کے زمانے میں ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرلی تھی اور شادی کے بعد گائیکی سے علیحدگی اختیار کرکے مکمل طور پر گھریلو زندگی گزاری۔ منور سلطانہ کے گائے ہوئے بہت سے اردو اور پنجابی گیتوں کی مقبولیت نے ان کے لیئے فلمی دنیا کے دروازے کھول دیئے۔ ریڈیو پاکستان لاہور سے گانے کے بعد انہوں نے گراموفون کمپنی کیلئے غزلیں اور بہت سے دوسرے گیت ریکارڈ کرائے ۔پاکستانی پہلی فلم تیری یاد 7 اگست 1948 ریلیز ہوئی اس فلم کے ہدایت کار داو¿د چاندتھے اس فلم میں منور سلطانہ نے 7 گیت ریکارڈ کرائے۔فلم کے موسیقار ناتھ تھے جن کا اصل نام عنایت علی تھا اس فلم کا کوئی بھی نغمہ مقبول نہ ہو سکا ۔انہیں اصل شہرت پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ”پھیرے “سے ملی اس فلم میں منور سلطانہ نے بہت ہی سریلے گیت گائے ۔”مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہوگیا‘کیہ کیتا تقدیرے توں رول دتے‘اکھیاں لاویں نہ فیر پچھتاویں نہ“۔آج بھی ان گیتوں کی بازگست کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس وقتمنور سلطانہ واحد گلوکارہ تھی اس لیئے ہر فلمساز کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ منور سلطانہ سے گیت گوائے۔فلم ”تیری یاد‘ ہچکولے‘ اہدہ‘سچائی‘مندری‘ پھیرے‘ جہاد ‘لارے‘ دو کنارے ‘بیقرار‘ دو آنسو ‘جدائی‘ کندن ‘گبھرو‘ انوکھی داستان‘ اکیلی ‘دلبر‘ بھیگی پلکیں‘ الزام ‘محبوبہ ‘آغوش‘ غلام ‘آواز‘ سیلاب‘ برکھا‘ گمنام‘ دیوار‘ شرارے ‘ہیر ‘قاتل‘ التجا‘ نوکر‘ دلابھٹی‘ لخت جگر‘ سوتیلی ماں‘ مس 56 ‘پینگاں‘ حقیقت‘ گڈی گڈا‘ بیداری ‘معصوم‘ شہرت ‘جگا ‘بے گناہ ‘چنگیز خان ‘حسرت اور سہارا میں یادگار گیت گائے ۔منور سلطانہ نے فلمی کیرئیر میں اردو اور پنجابی 52 فلموں میں 272 گیت گائے ۔ان کے معروف نغمات میں ”یوں دی ہمیں آزادی کہ ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘واسطہ ای رب دا، توں جاویں وے کبوترا‘اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال‘او پردیسیا بھول نہ جانا ، بھول نہ جانا او پردیسیا‘مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہوگیا‘کیہ کیتا تقدیرے، کیوں رول دتے دو ہیرے“شامل ہیں۔ریڈیو پاکستان کی سابق ڈائریکٹر پروگرامز نیّرجمال کے مطابق منور سلطانہ نے ریڈیو پاکستان کے لیے بہت عمدہ غزلیں اور لوک گیت بھی گائے۔جیسے ”ساڈا چڑیاں دا چنبہ‘ نی ساون گائیے نی‘لوری لال نوں میں دیواں“شامل ہیں۔ منور سلطانہ کی آواز میں ایک خاص درد بھری مٹھاس اور تازگی تھی۔ان کا انتقال 7 جون 1995ءکو لاہور میں ہوا ۔