تازہ تر ین

محبت ، عشق اور قانون

مریم ارشد……..میری آواز
سُنو!کبھی محبت کی ہے؟محبت !کس نے نہیں کی؟ معلوم ہے دنیا میں سب سے پہلے کس نے دل دیا؟ ہاں! دنیا کے سب سے پہلے محبوب سب سے پہلے دلبر رسالت مآب ہیں۔ خدا نے سب سے پہلے اپنا دل آپ پہ نچھاور کیا اور محبت کی بنیاد رکھی۔واہ! کیا محبوب ہے؟اور کیا چاہنے والا!پوری کائنات کایکتا مالک اور پوری کائنات کے رحمةاللعالمین حضور۔جس طرح ہر انسان خواب دیکھتا ہے بالکل اسی طرح محبت بھی ہر انسان کرتا ہے۔ نیند سے جاگ اُٹھنے پہ خواب بھول جاتے ہیں لیکن محبت نہیں‘ےہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈیرے ڈال کر ہٹ دھرمی سے بیٹھ جاتی ہے۔ قانون کہتا ہے خدا کو تلاش کرنا ہے تو دنیا کے ہر ذرّے میں اس کی قدرت کو تلاش کرو۔ وہ تمہیں کبھی کسی مسجد ، مندر ، گرجے ، گردوارے ، مزار یا دربار میں نہیں ملے گا۔ اگر کبھی تمہیں دنیا کے جھمیلوں سے فرصت ہوتو اپنی اکڑی ہوئی گردن کو ذراجُھکا کر اپنے سینے کی طرف دیکھناوہ تمہیں وہیں ملے گا۔محبت کرنا کوئی آسان کام نہیں اس کے لے سر دینا پڑتا ہے ۔ عشق کی راہیں تو بہت اوکھی ہیں اپنے وجود کی نفی ہے۔ عشقِ پیغمبرکے معنی تو عرش کی بلندیوں سے بھی بلندہیں۔ رومی نے محبت کی تعریف میں دیوان لکھ ڈالے لیکن لوگ آج بھی نفرت کے گرداب میں پھنسے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک ہی سانچے میں ڈھالاہے۔ اس نے ہر ایک کے دل میں مختلف جذبات ڈال دیے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ لیکن محبت کا نرم جذبہ سب کے دلوں میں رکھا۔ ربّ چاہتا ہے کہ انسان اس کو اجاگر کرے لیکن انسان تو نفرت کی بھٹی کو دہکاتا رہتا ہے جس میں وہ تعصب ، مذہب ، فرقہ بندی اور شرپسندی کا ایندھن ڈالتا رہتا ہے ۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ محبت کی مٹی سے گُندھا ہو ا انسان اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا ۔ کینہ دل کا بڑا آزار ہے ، کینہ دوزخ کی نار ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ کینہ ور جنت میں نہ جائے گا۔جیسے ہاتھوں اور کاری گرکااہم رشتہ ہے ۔ اگر ہاتھ اور اوزار کی مناسبت درست ہوگی تو کام بہترین ہوگاورنہ خراب ۔ ہر آلہ، ہر اوزارہر ہاتھ کے لیے نہیں بنا ۔ حضرت موسیٰ ؑکے ہاتھ کی لکڑی کا عصااژدھا بنا جو معجزہ ہونے کی بنا پر رسالت کی گواہی بن گیا کیونکہ ہاتھ اور اوزار میں مناسبت تھی۔ سارے ساحر ہار گئے اور ان کی لاٹھیاں بے کار ہوگئیں۔ اگر ہاتھ ہی کام کے نہ ہوں تو اوزار کیا کام کرے گا۔ ہم نبی کے امتی ہونے پہ فخر محسوس کرتے ہیںمگر ہمیںےہ زعم ہوگیا ہے کہ صرف ہم ہی نیک ہیںاور کوئی نہیں۔ ہم خود ہی اخوت و بھائی چارے کے بہتے پانی کے آگے چٹانیں کھڑی کرنے لگے ہیں۔ کیا ہوگیا ہمیں کہ ہم اپنے سوا سب کو سیاہ کار گرداننے لگے؟ کہا جا رہا ہے کہ حالیہ دھرنے میں حکومت اور دھرنے والے دونوں نے اپنی رسم قائم رکھی۔ ملک بھر میں بے لگام سیاسی افراتفری پھیلی رہی جس میں پنجاب پولیس کا کردار کہیں دکھائی نہیں دیا یوں لگ رہا تھا دہشت گردی کو کُھل کھیلنے کا موقع جان بوجھ کر دیا گیا۔ اب ےہ حکومت کی کڑی ذمہ داری ہے کہ فوراً اصلی چہروں کو بے نقاب کیا جائے۔ دوسری طرف مذہبی رہنماﺅں نے جو اشتعال انگیز تقریریں کیں، راستے بند کیے ان سے شریف شہریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ میرا بیٹا بھی رائے ونڈ روڈ سے اپنی یونیورسٹی سے دوپہر 2بجے نکلا اور شام 7بجے گھر پہنچا ۔ ایک ماں ہونے کے ناطے میرے دل کی اُتھل پُتھل کو شاید سب ہی سمجھ سکتے ہوں سوائے اسلام کے نام نہادٹھیکیداروں کے۔تین روزہ دھرنا اپنے انجام کو پہنچا جس کا اختتام ایک پانچ نکاتی معاہدے پہ ہوا۔ یوں حکومت اور دھرنے والے دونوں کو لگا کہ جیت اُن کی ہوئی ہے ۔ بقول فواد چوہدری کے ےہ تو آگ بجھائی گئی ہے ، مسئلے کا مستقل حل تو باقی ہے ۔سچ ہے قوم کے دلوں میں سوالوں کی اُٹھتی ہوئی بھاپ روح تک کو سلگا دیتی ہے کہ آخر عشقِ رسول کی آڑ میں دین کو بدنام کرنے والے ےہ لوگ کون ہیں۔ ایک تصویروائرل ہوئی جس میں لاٹھیوں سے بھرا ہوا ایک بڑا سا ٹرک تباہی کے لیے لایا گیا۔ چند سوال اُبھرتے ہیںکہ اتنی بڑی تعداد میں لاٹھیاں لادی گئیں تو کیا وہاں متعلقہ پولیس کو معلوم نہ ہوا۔ آرڈر کہاں سے کروایا گیا‘ اس کا سپلائر کون تھا‘اس کی ادائیگی کا طریقہ کیا تھا؟ ان حالات میں ےہ ٹرک سڑک پہ جارہا تھا تو کیوں پولیس نے باز پرس نہیں کی؟ یوں تو پولیس ہر شریف آدمی کو روک روک کر پوچھے جارہی تھی۔ ےہ وہ تفصیلات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنے سے مجرم تک پہنچنا سہل ہوسکتا ہے۔ آخر اس سارے کھیل میں ایجنسیسز کا کردار کہاں تھا؟اگرہم اس طرح کے موضوعات پہ بات نہیں کریں گے تو نہ صرف ےہ واقعات دہرائے جائیں گے بلکہ مستقبل میں مزید مستحکم ہوںگے۔
ایک اور اہم نکتہ ےہ ہے کہ ہمارے ےہاںکا نظامِ قانون بہت سست رفتار اور نہایت مہنگا ہے۔ سال ہا سال مقدموں کی فائلیں پڑی رہتی ہیںحتیٰ کہ ملزم تختہ¿ دار پر لٹک جاتے ہیں ازاں بعدپتہ چلتا ہے اس نے تو وہ جرم کیا ہی نہ تھا ۔ بظاہر اس کا علاج ےہ ہے کہ گواہوں اور عدالتی کارروائیوں پہ نظرِ ثانی کی جائے اور اپیل کا حق زیادہ سے زیادہ دو بار رکھا جائے ۔ لوگ بلاشبہ عدالتوں میں جھوٹے مقدمات دائر کرکے مختلف قسم کے جھوٹ بولتے ہیں ۔وطنِ عزیز میں رائج برطانوی عدالتی نظام صرف جھوٹ بولنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ حکام بالا بھی ہر طرح سے ان ہی لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ ایڈورڈ پینڈرِل مُون انڈین سول سروس کے ناظم نے اپنی کتاب (Strangers in India) میں لکھاہے کہ :”نظامِ عدالت ملک کی ایک بڑی آبادی کی فہم سے بالاتر ہے ۔ ےہ پیچیدہ ، سُست، مہنگا ہے اور سب سے بڑھ کر ےہ کہ کوئی انصاف نہیں کرتا۔ اگر کسی کو انصاف مل جائے تو اسے بڑا خوش قسمت سمجھنا چاہیے۔ اس نظام نے لوگوں کے اخلاق کو تباہ کردیا کیونکہ اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہر آدمی کو جھوٹ اور پھر اس جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے مزید جھوٹ بولنا پڑتا ہے “۔لمحہ فکریہ ےہ ہے کہ اس سے پورے ملک کا نظام اور لوگوں کا اخلاق تباہی کے گڑھوں میں گِرگیا ۔ وقت کا تقاضاہے اب اسے پاکستان کی تہذیب و تمدن کے مطابق ڈھالا جائے ۔ کتناہی اچھا ہو اگر وکلا بھی اس نظام کی درستی کی خواہش کا اظہار کریں۔ ہم جیسے لوگ تو صرف الفاظ کو کاغذ پہ بکھیر کر اپنے دبے دبے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ اس میں اختراع اور اصلاح تو یقینامحکمہ¿ قانون کے قابل لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ میں قانون تو بالکل نہیں جانتی میں تو بس ےہ جانتی ہوں کہ وطنِ عزیز میں مقدموں کے فیصلے جلدی جلدی نمٹائے جائیں تاکہ لوگوں کو حقیقی معنوں میں انصاف مہیا ہو۔ ختم اس بات پہ کرتی ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے جن بیچاروں کی موٹر سائیکلیں ، گاڑیاں اور بسیں ناحق جلائی گئی ہیں وہ جنت میں چلے جائیں اور جلانے والے اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار جہنم میں ۔ اللہ ہی ہرچیزکا جاننے والا ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭….٭….٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain