لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اہور میں واہگہ بارڈر پر رش کم ہو گا۔ دوسرے شہروں کے لوگوں کو لاہور آنے کی بجائے نیا گیٹ وے کھلنے سے عوام کو سہولت ملے گی۔ ایک لحاظ سے عمران خان کی حکومت کی کامیابی ہے کہ انہوں نے کرتار سنگھ بارڈر کھولنے کی تجویز دی اور بھارت نے اسے منظور کر لیا۔ پاکستان نے تاریخ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ 28 نومبر کو اس کا افتتاح ہو گا۔ اس سے ایک راستہ کھلا ہے کہ پاکستان ہر مثبت قدم پر تعاون کرتے ہیں لیکن بھارت جو ہے ہمیشہ مذاکرات سے بھاگتا آیا ہے۔ بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بات کرتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ پانی کا ایشو بھی بارڈر کا ایشو، کشمیر کا ایشو بھی۔ دیگر معاملات مثلاً قیدیوں کا تبادلہ سمیت جب عملاً جس کو بھارت جا ملے مذاکرات کہتا ہے وہ شروع کبھی نہیں ہوتے۔ اب پاکستان نے پہل کی ہے اور بھارت کا مثبت جواب آیا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے ایک فضا ہموار کر دی ہے ایک پہلا قدم اٹھا کر متنازعہ امور کو اس طرح بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک زمانے میں لوگوں نے کشمیر کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا تھا اور اخبارات میں یہ بات لکھی جانے لگی کہ کشمیر ایک مردہ گھوڑا ہے۔ اس وقت آغا شاہی جو معروف سفارتکار ہیں جب بھٹو وزیراعظم تھے وہ ان کے ساتھ سیکرٹری امور خارجہ تھے اور ضیاءالحق کے دور میں وزیرخارجہ بنایا گیا تھا۔ مجھے اور ارشاد حقانی کو فون کر کے لاہور سے بلوایا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ضروری انٹرویو دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا۔ انہوں نے پر پُرزور الفاظ میں مذمت کی کہ جو لوگ کشمیر کر ڈیڈ ہاﺅس کہتے ہیں وہ اپنے ملک کے بھی دشمن ہیں کشمیر کے بھی دشمن ہیں۔ اگر جس طرح سے کشمیر میں لوگ آزادی چاہتے ہیں وار ان کی تڑپ بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی قربانیاں بڑھ رہی ہیں ہم پتہ نہیں دنیا میں ہوں گے یا نہیں ہوں گے لیکن کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہو گا۔ ہم نے کہا فی الحال تو انڈیا اس کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ آغا شاہی نے کہا کہ آپ کو کیا پتہ کہ آج سے 15 سال بعد کیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے انڈیا مسائل میں پھنس جائے۔ اندرونی حلفشار کی وجہ سے کمزور ہو جائے اور اس طرح سے کشمیر پر اس کی گرفت کمزور ہو جائے اور اس کو یہ علاقہ چھوڑنا پڑ جائے۔ عمران خان حکومت کے دور میں کشمیر سمیت اور بھی کئی اور ٹیپ بھی مثبت سمتی میں کرنے والے ہیں جس سے یہ ثابت ہو گا دنیا پر دباﺅ پڑے انڈیا کیوں بدلے میں دو طرفہ طریقے سے اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔
نیا بارڈر کھلنے والا ہے۔ صرف ایک دن پہلے آرمی چیف نے دورہ کیا ہے اور آزاد کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر جائزہ لیا ہے اور پاکستان کی طرف سے کام کرنے جو کاشتکاروں کی ہمت بندھائی ہے کہ وہ اتنی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں آپ وزیرداخلہ بھی رہے ہیں۔ یہ کیا وجہ ہے کہ ہم پوری کوشش کے باوجود آزاد کشمیر کے بارڈر پر جہاں ایک طرف انڈیا ہے اور دوسری طرف پاکستان ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ہمارے معصوم شہریوں، کاشتکاروں، خواتین اور معصوم بچوں پر گولیاں نہ چلتی ہوں اس مسئلے کا کیا مستقل حل ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ہمارے چیف جسٹس نے بھاشا ڈیم کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھاشا ڈیم کا بننا بعد ازاں صوبوں کے اتفاق رائے کے ساتھ کالاباغ ڈیم بہت اچھی سائٹ ہے اس کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے لیکن میری رٹ یہ ہے کہ ستلج اور راوی میں پورے کا پورا پانی سو فیصد پانی انڈیا بند نہیں کر سکتا کیونکہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ءمیں اس پر خود انڈیا نے لکھا ہے کہ دریائے چناب اور دریائے جہلم جب تک انڈیا کے علاقے میں بہتے ہیں اگرچہ وہ دریا آگے چل کر پانی کے حصے میں آتے ہیں لیکن اس دوران جہاں وہ انڈیا میں بہتے ہیں۔
سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ اگر دشمن خراب ہو اور اس کا مائنڈ سیٹ پاکستان کے خلاف اس دن سے ہو جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا اس سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں میں نے بڑے فورم سے بات کی ہے کہ ہم نے جو آزاد کشمیر کے سلسلے میں کوششیں کی ہیں یا پورے کشمیر کے لئے کوششیں کی ہیں۔ جو بربریت جو کشمیر میں ہو رہی ہے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم وہ گیم کھیل رہے ہیں جو ہمیں انڈیا کھلا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ جو ریزولیوشن جو ہے یو این او کا ہے وہ انڈیا کا ہے نہ پاکستان کا ہے۔ اس کو عملدرآمد کرانا یو این او کا کام ہے ہمارا اصل کام بحیثیت قوم یہ تھا کہ ہمیں ہر صورت ایک لابی کری ایٹ کر کے اس ریزولیوشن کو دوبارہ لے کر جانا چاہئے تھا یو این او میں اور اس کو ری وائیو کرنا چاہئے تھا۔ آج ہم باہمی دوطرفہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔معاملہ آخر کار حل کرنا ہے یو این او نے انڈیا سے پاس کروائی ہے اور انڈیا پاس نہیں کر رہا نہ اس کا ارادہ لگتا ہے ہمیں کیوں یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ جیسا قرارداد 9/11 کا ہوا تھا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ شملہ معاہدہ جو بھٹو کی سوچ کا نتیجہ تھا۔ اس وقت ہمارے فوجی بھی انڈیا کی قید میں تھے ہمارا علاقہ بھی ان کے پاس تھا اور ایک وفد دوبار اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے ہمیں ضرور تھی کہ اس معاہدے کی لیکن اس معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ کشمیر کا ایشو جو ہے وہ بجائے اس کے کہ کوئی تیسرا فریق اس میں پڑے دونوں ممالک آپس میں جو بھی ایک دوسرے سے مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے توجناب پرویز مشرف کے دور میں اس وفد میں شامل تھا اور مجھے 3 سوال جب پاکستانیوں کو تین سوال پوچھنے کے لئے کہا تھا صدر بش نے تو میں میرا پہلا سوال ملیحہ لودھی اس وقت ہماری سفیر ہوتی تھیں پہلا سوال ہی میں نے کیا تھا اور میں نے یہ سوال کیا تھا کہ جناب امریکہ نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر امریکہ ہماری مدد کیوں نہیں کرتا تو صدر بش نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہم اب کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ اب تو آپ نے آپس میں براہ راست مذاکرات کا معاہدہ کر رکھا ہے آپ یہ فرمایئے کہ میرا سوال یہ ہے کہ اب اگر بھارت باوجود کوشش کے باوجود بات چیت پر آمادہ ہی نہیں ہے تو اور بیس سال، یا 200 سال تک اس امید پر بیٹھے رہیں گے کہ وہ شملہ معاہدے کے تحت بات کرے کیا ان کے بات چیت پر آمادہ نہ ہونے کے سلسلے میں ہم کوئی اس ایشو کو یو این او میں نہیں لے جا سکتے کہ یہ تو بات ہی نہیں کرتے، بات کرنے کا معاہدہ کر کے بات کرنا تو کوئی بات نہیں ہے۔
سابق وزیرداخلہ رحمان ملک نے وہی بات کی ہے جو بات میں نے کی تھی۔ جو شملہ معاہدہ ہوا تھا وہ ایک جنگ کے بعد تھا۔ خود اندراگاندھی خود لکھتی ہے کہ اور یہ بھٹو نے جو ایک وہاں ساری میٹنگ میں خود نہیں چاہتے انڈیا سے کروایا اور 90 ہزار قیدی تھے اور پاک اور بھارت میں مذاکرات میں کوئی راہ نکالیں کہ ہم نے جو باہمی طریقے سے چلنے کا جو معاہدہ اس کو آگے لے کر جانا ہے کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت یہ یہ وہ کیسے کر سکتے ہیں۔ انڈیا بات کرتاہے اور بھاگنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور خاص طور پر جو ابھی حالات پیدا ہوئے ہیں جب تک مودی ہے آپ سمجھ لیں اس کا مائنڈ سیٹ پاکستان کے خلاف ہے اور جس انداز سے وہ روز حرکتیں کرتا ہے۔ بلوچستان کو توڑنے کی دھمکیاں دی تھیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ وہاں کے باغیوں کو امداد دی وہ آپ کے سامنے ہے۔ اگر ایک چیز طے ہوئے ہے تو وہ نہیں ہو رہی ہے تو بھارت کی طرف سے ہوئی ہے۔ رحمان ملک نے کہا کہ مسلمان ممالک کو ساتھ لے کر ایک اور قرارداد لانی چاہئے کہ یو این او نے کشمیریوں کی رائے شماری کی جس قرارداد کو پاس کیا تھا، بھارت اس پر عمل نہیں کر رہا۔ اگر یو این او مسئلہ کشمیر حل نہیں کر سکتا تو پھر کسی نہ کسی مسئلے میں الجھائے رکھے اور دنیا میں بدنام کرے۔ دنیا کا کون سا علاقہ ہے جہاں 3 لاکھ فوج بھیج دی جائے کہ وہ وہاں کنٹرول کرے۔ بھارتی فوج نے اب تک کتنے معصوم و بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا، کتنی خواتین سے ریپ ہوئے سب جانتے ہیں۔ یو این او کی ہیومن رائٹس کی کشمیر کے حوالے سے جو تازہ رپورٹ آئی ہے وہ خود پڑھ کر رو رہے ہیں کہ اتنا ظلم ہو رہا ہے، ہمارے حکمران کیوں نہیں رو رہے، کیوں ایکشن نہیں لیتے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بڑی بہادری و ہمت کے ساتھ دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ آسیہ بی بی کے خلاف کوئی فیصلہ کر کے نہیں بیٹھے ہوئے، وہ پاکستان کی شہری ہیں ان کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے، اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف نے جو اپنی صفائی میں کہا وہ ایک ملزم کا بیان ہے کوئی فیصلہ نہیں۔ عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ جرنلزم پڑھنے و پڑھاتے وقت بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ عدالت میں کسی بھی زیر بحث معاملے پر رائے نہیں دینی چاہئے۔ کچھ عرصے سے یہ رجحان پیدا ہوا ہے کہ عدالت کے باہر بھی ایک اور عدالت لگتی ہوتی ہے۔ ہم عدالت کے معاملے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔ شہباز شریف بھی جو مرضی کہیں انہیں پورا حق حاصل ہے لیکنوہ ایک ملزم کا بیان ہے۔ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قیصر امین بٹ وعدہ معاف گواہ کے طور پر سامنے آ گئے تو وہ خود تو بچ جائیں گے البتہ اور بہت سارے لوگوں کو سزا دلوا دیں گے۔ پلی بار گین نیب نے شروع کی تھی، جس کے تحت جتنی بھی کرپشن، لوٹ مار یا غیر قانونی طور سے کمایا گیا پیسہ پکڑا جاتا ہے ملزم اس کا کچھ فیصد دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے۔ بھائی پھیرو میں بجلی چوری پکڑے جانے کے واقعے پر انہوں نے کہا کہ جو پولیس والے رشوت لے کر بندے چھوڑ دیتے ہیں ان کے خلاف بھی سخت ایکشن ہونا چاہئے۔ کاغذ مہنگا ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں کتابوں کی عدم دستیابی پر انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹ بورڈ کا فرض تھا کہ اگر کاغذ مہنگا ہو گیا تھا تو پبلشرز کے ساتھ فوری ایک ہنگامی میٹنگ کرتے اور مہنگائی کے تناسب سے ان کا معاوضہ بڑھاتے۔ قصور میں لنگور کے داخل ہونے پر انہوں نے کہا کہ ہندو یہ مانتے ہیں کہ جو جانور موجود ہیں وہ بھی پہلے انسان ہوتے تھے۔ مودی بھی جب فوت ہو جائیں گے تو وہ بھی بندر، بھینس یا کسی اور جانورکی شکل اختیار کر لیں گے۔ امیتابھ بچن کے بیٹے کی جب ایشوریا رائے سے شادی ہوئی تھی تو ان کی اس سے پہلے4 شادیاں کروائی گئی تھیں۔ پنڈتوں و نجومیوں اور ہندو سکالروں نے کہا تھا کہ ان کی پہلے بندر سے اور پھر درخت سے شادی کرائی جائے تو پھر ان کی شادی کامیاب ہو گی۔
تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہاﺅس آف کامن میں یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کی کوئی عدالت آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے گی۔ آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بنا پر بے گناہ قرار دیا گیا۔ الزام جھوٹا تھا۔ میں نے چیف جسٹس سے سوال کیا تھا کہ اگر آسیہ کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالنا تو پھر اس کو باہر کیوں نہیں جانے دیا جا رہا؟ اس طرح تو ابہام پیدا ہو گیا ہے۔
تحریک لبیک کے رہنما ڈاکٹر اشرف جلالی نے کہا کہ آسیہ بی بی کا معاملہ سنجیدہ ہے۔ عجلت میں فیصلہ ہوا جس میں واضح تضادات موجود ہیں۔ گواہوں کے بیانات میں تضادات معمولی جبکہ چیف جسٹس کے اپنے فیصلے میں سنجیدہ تضادات ہیں۔ انہیں جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی، غیر محتاط فیصلہ کیا گیا، شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس اب باہر کے دورے پر چلے گئے ہیں ہاں آسیہ بی بی کے حوالے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک امت مسلمہ اس مسئلے پر متفق نہیں ہوتی اور ان کو دلائل کی روشنی میں قائل نہیں کیا جاتا تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، یہ ابھی باقی ہے۔
نمائندہ بھائی پھیرو حاجی رمضان نے کہا کہ بجلی چوری کا 543/18 جو مقدمہ درج کرایا گیا ہے اس میں بڑے بڑے مگر مچھوں کے نام ظاہر نہیں کئے گئے صرف میٹروں کے نمبر لکھے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واپڈا بڑے مگر مچوں کو بچانا چاہتا ہے۔ میرٹ پر تفتیش کی امید نہیں، واپڈا خود بجلی چوری میں ملوث ہے۔ جو بجلی چوری پکڑی گئی یہ کروڑوں روپے کا گھپلا ہے۔ 28 لاکھ روپے برآمد ہوئے ہیں اور میٹر ریورس کرنے والی فیکٹری پکڑی گئی ہے۔ اگر اس پر جے آئی ٹی بنائی جائے تو شاید یہ مسئلے ختم ہو سکیں۔
نمائندہ قصور جاوید ملک نے کہا کہ بھارت سے 3 روز پہلے گنڈا سنگھ بارڈر کراس کر کے ایک لنگور قصور کے دیہات میں داخل ہوا ہے۔ لنگور کا قد 6 فٹ اور موٹا تازہ ہے۔ لنگور ایک ایک گاﺅں پھر رہا ہے اور اب تک 9 افراد کو زخمی کر چکا ہے۔ 2 زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ زخمیوں میں 2 بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہے۔ لنگور کو پکڑنا محکمہ وائلڈ لائف کی ذمہ داری ہے۔ 1122 والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں۔ وائلڈ لائف کا محکمہ 2 روز سے اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اب تک ناکام رہا ہے۔
