کراچی (ویب ڈیسک)جیل ایک ایسا لفظ جسے سنتے ہی ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ، اللہ نا کرے کوئی بھی کبھی جیل جائے کیونکہ جیل بھی کوئی جانے کی جگہ ہے۔ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے لیے صرف دو شعبے ہی زیادہ تر قابل عزت سمجھے جاتے ہیں ایک ڈاکڑی اور دوسرا ٹیچنگ۔ جیل کی نوکری اگر آج بھی کسی لڑکی کو مل جاتی ہے تو خاندان، رشتہ داروں کو سو طرح کے تحفظات ہوتے ہیں۔ اسی لیے جیل خانہ جات کی نوکریوں کے لیے اکثر مرد ہی موضوع سمجھے جاتے ہیں۔توحید دن کا آغاز قیدی خواتین سے اپنے بیرک کی صفائی کی نگرانی سے کرتی ہیں۔لیکن ایک ایسی خاتون بھی جو گذشتہ 32 سال سے جیل میں نوکری کر رہی ہے اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتی ہے۔ ان سے ملنے کے لیے مجھے صوبہ خیبر پختونخوا کی قیدیوں کی گنجائش کے لحاظ سے سب سے بڑی جیل ‘سنٹرل جیل مردان’ جانا پڑا۔مردان جیل میں اس وقت تقریباً 1720 کے قریب مرد، خواتین اور نابالغ موجود ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد 80 کے قریب ہے اور بیشتر کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے بھی رہتے ہیں۔جو قیدی خواتین کورٹ میں تاریخ کی سنوائی کے بعد واپس آتی ہیں توحید ان کے سامان کی تلاشی کرتی ہیںتوحید بیگم جن کا تعلق چارسدہ سے ہے، انھوں نے اپنی زندگی کے 32 سال صوبے کی 18 جیلوں میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارے۔ آج کل وہ سنٹرل جیل مردان میں ‘ہیڈ کانسٹیبل’ کے عہدے پر کام کر رہی ہیں اورعنقریب وہ جیل کی اس نوکری سے ریٹائر ہونے والی ہیں۔توحید بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جیل کی نوکری میں عورتوں کی حفاظت اور عزت زیادہ ہے کیونکہ یہاں زنان خانے میں کوئی مرد نہیں آتا، یہاں صرف ان کے ساتھ لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ ہوتی ہیں۔دن کے ایک مخصوص وقت میں تمام قیدی خواتین ایک جگہ بیٹھ کر توحید اور جیل کی لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتی ہیں۔توحید بیگم نے بتایا کہ ‘میں نے سنہ 1977 میں میڑک کی تعلیم حاصل کی اور جیل خانہ جات کی نوکری 1986 میں شروع کی اور اپنی مرضی سے اپنے لیے اس نوکری کا انتخاب کیا۔ اس زمانے میں چونکہ تعلیم اتنی عام نہیں تھی تو میرے رشتہ داروں اور محلے کے لوگوں نے میری جیل کی نوکری پر بہت اعتراض کیا اور میرے بارے میں اکثر کہتے تھے کہ ‘وہ دیکھو جیلر جا رہی ہے اور مردوں کہ ساتھ کام کرتی ہے’ لیکن میں نے لوگوں کی باتوں پہ کبھی دھیان نہیں دیا کیونکہ اگرآپ خود ٹھیک ہیں تو کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔’جیل کے اندر ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان بھی ہے اور وہاں سے آنے کے بعد توحید سامان کی تلاشی b[y لیتی ہیںمردان جیل میں اس وقت موجود لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ رابعہ امین نے بتایا کہ ‘توحید جیسی بہادر خواتین ہی ہیں جن کو دیکھ کر آج کل نوجوان لڑکیاں بھی جیل خانہ جات کی نوکری کی طرف آرہی ہیں، میں نے ان کو بہت پروفیشنل پایا، یہ قیدیوں کے ساتھ بہت تحمل سے بات کرتی ہیں۔’ہر بیرک کی خواتین آکر توحید سے روٹیاں لے جاتی ہیںتوحید بیگم نے بی بی سی کو بتایا: ‘خواب میں بھی میں اچانک اٹھ بیھٹتی ہوں اور لگتا ہے کہ فلاں بیرک میں خواتین آپس میں تیز تیز بات کر رہی ہیں اور مجھے ان کو جا کر منع کرنا ہے۔ کیونکہ ساری عمر ہی یہیں گزر گئی اور یہ لوگ ہی اب اپنے لگتے ہیں۔’توحید تمام بیرک کی نمبردار قیدی خواتین کے ساتھ ایک میٹنگ کرتے ہوئے۔توحید بیگم کے دن کا آغاز صبح چھ بجے جیل سے ہوتا ہے انکے پاس قیدیوں کے تمام کاموں کی نگرانی کرنا ہے جن میں انکے سامان کی باقاعدہ تلاشی لینا بھی شامل ہے جب بھی وہ تاریخ سے واپس آتی ہیں یا انکے گھر والے قیدی خواتین کے لیے سامان لاتے ہیں۔یہ ایک سزائے موت کی قیدی کا سیل ہے جہاں اندر جانے کی اجازت صرف توحید کو ہےدوپہر میں وہ قیدی خواتین کو روٹیاں تقسیم کرتی ہیں۔ مردان جیل میں سزائے موت کی تین خواتین بھی ہیں جن کے پاس جانے کی اجازت صرف توحید بیگم کو ہے وہ انکے پاس جاکر انکے مسائل سنتی ہیں اور پھر انھیں اپنے افسران تک پہنچاتی ہیں۔توحید نے زندگی کے 32 سال جیل خانہ جات کی نوکری کرتے ہوئے گزارےتوحید بیگم کہتی ہیں کہ زندگی کے جیل میں گزارے 32 سال ایسے لگتے ہیں جیسے کل کی بات ہو، ’جب میں آئی تھی تو میں ایک کمزور لڑکی تھی اور آج میں ایک خود مختار اور بہادر عورت ہوں جسے معاشرے میں رہنے کے آداب آ گئے ہیں۔‘
