اسلام آباد (آن لائن +مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک وزیراعظم پر سو فیصد الزامات کی تصدیق نہ ہو سخت فیصلہ نہیں دے سکتے، نیب اور ایف آئی اے نے خود کو فارغ کردیا ہے ، یہ ادارے صرف تنخواہیں لینے کیلئے بنائے گئے ہیں ، جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں یہ معاملہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس اعجا ز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سب سے پہلے درخواست میں نے دی ہے تمام کرپٹ افراد کا احتساب ہونا چاہیے ، پانامہ لیکس میں جو اصل لوگ ہیں ا ن کا احتساب ہونا چاہیے ایسا لگتا ہے کہ کرپشن کیخلاف نہیں ایک مخصوص شخص کیخلاف درخواست ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا اکہ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر نئی درخواستیں وصول کرینگے تو کیس ختم نہیں ہوگا اگر ایسا چلتا رہا تو مرکزی کیس کا فیصلہ نہیں کرسکیں گے ہر سماعت پر پانچ سات نئی درخواستیں آجاتی ہیں درخواست اس وقت حاکم وقت کیخلاف آئی ہے ابتداءانہی سے کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمیں احتساب کی ابتداءتو کرنے دیں کیا بینچ سے کسی نے کہا ہے کہ ایک کے بعد کسی کا احتساب نہیں ہوگا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ شاہد ہم اس معاملے پر دو مختلف آرڈرز جاری کریں۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں عدالت سے توقعات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ توقعات عورتیں کرتی ہیں طارق اسد صاحب۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق نیب اور دیگر اداروں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ لیکس کا ایشو آئی سی آئی جے نے لیک کیا اور یہ ایشو تین اپریل کو سامنے آیا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام شامل تھا۔ پانامہ لیکس میں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے اپنا نام آنے پر مستعفی ہوگئے تھے ۔ حامد خان نے پاناما لیکس سے متعلق وزیر اعظم کا قوم سے خطاب کا متن پڑھ کر سنایا۔ حامد خان نے کہا نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ کس طرح ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر پرویز مشرف تک نے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ہماری ناکہ بندی کررکھی تھی ہمارے کارخانوں کی تمام چمنیاں ٹھنڈی کردی گئیں حامد خان نے کہا کہ نوا ز شریف کے خطاب میں اٹھارہ ماہ میں چھ فیکٹریاں بنانے کی بات کی گئی جو اہمیت کی حامل ہے انہوں نے کہا کہ کہ وزیر اعظم نے 27 اپریل کو پہلا جب کہ اس کے 17 دن بعد دوسرا خطاب کیا، نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ 22 سال پرانے ہیں،وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر کمیشن نے قصور وار ٹھرایا تو گھر چلا جاو¿ں گا۔جسٹس عظمت سعید نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ تقریر پڑھ رہے ہیں اس کا کیا فائدہ، اگر ان تقریروں سے تسلی ہوتی تو آپ یہاں نہ ہوتے، جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیاکہ وزیراعظم کے بیان کے مطابق ان کے دوبچے بیرون ملک ہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے لیکن بچوں کے کاروبار کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تقریر کے مطابق وزیر اعظم نے جدہ اسٹیل مل فروخت کرکے بچوں کو کاروبار کروایا، نوازشریف کی تقریر میں ہے کہ ان کے والد نے مکہ میں کارخانہ لگایا، کارخانے کے لیے سعودی بینکوں سے قرضہ لیا، اس خطاب میں لندن کے فلیٹس کا ذکر نہیں، لگتا ہے وزیر اعظم نے مستعفی ہونے کا عہد خود سے کیا ہے قوم سے نہیں جس پر کمرہ عدالت ایک بار پھر قہقہوں سے گونج اٹھا حامد خان نے کہا کہ یہ بات بڑی اہم ہے کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہماری جیب میں ایک دمڑی بھی نہیں تھی۔ نوازشریف واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عدالتوں نے ان پر لگائے گئے الزامات مسترد کیے، پاناما لیکس میں جوالزمات لگائے گئے وہ 22سال پرانے ہیں، کیا ملک کے کسی ادارے نے تحقیقات کیں،کیا ماضی میں وزیر اعظم پر لگائے گئے الزمات کی تحقیقات اور نتائج سا منے آئے ہیں کیاان مقدمات کے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں غلط بیانی کی تو نتائج بھگتنا ہونگے ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا لندن کے فلیٹس ان مقدمات میں شامل تھے،جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ جائیداد ان مقدمات میں شامل نہیں جن پر عدالت نے فیصلہ سنایا۔ جسٹس عظمت سعید کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے، ایک بھی الزام پر دوبارہ تحقیق ہوئی تو پھر یہ دوہرا ٹرائل ہوگا۔ حامد خان آپ وکالت نہیں سیاست کررہے ہیں،1981 میں وزیر اعظم نے 300 روپے ٹیکس دیا یا250، یہ ہمارا مقدمہ نہیں، ایسالگ رہاہے مقدمہ جس سمت میں جارہا ہے کبھی ختم نہیں ہوگا۔حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ دو بیٹے بیرون ملک ہیں جہاں وہ کاروبار کرتے ہیں، 1976 میں پیدا ہونے والا حسن نواز 1984 میں لندن پہنچا، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حامد خان صاحب کیا وزیراعظم قوم سے خطاب کے وقت عزیز ہم وطنوں کے الفاظ نہیں ہوتے تھے جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ الفاظ فوجی آمر کہتے تھے اس لئے وزیراعظم نے اس کو تبدیل کیا ہے اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے ، وزیر اعظم کی تقریروں میں کوئی ٹائم فریم نہیں بتایا کہ دبئی اسٹیل مل 80 کی دہائی میں بیچی اور جدہ اسٹیل مل 2001 میں لگائی، دبئی پراپرٹی کی فروخت اور جدہ فیکٹری کی خریداری میں 21 سال کا وقفہ ہے، دستاویز میں جون 2005 میں اسٹیل مل بیچنے کی تاریخ تو ہے لیکن خریدنے کی تاریخ نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے بچے کہتے ہیں دبئی کی اسٹیل مل قرضہ لے کر قائم کی ، اگر وزیراعظم کے بچوں نے دستاویزات سے خریداری ثابت کردی تو آپ کا کیس فارغ ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیراعظم کے بیان پر ہم قرار دیں کہ لندن کے فلیٹس کالے دھن سے خریدے گئے، جب تک تفصیل سے تحقیقات نہیں ہوتیں کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے، آپ کو پاناما کیس میں ٹھوس شواہد پیش کرنا ہوں گے، انکوائری کمیشن تمام شواہد کا جائزہ لے سکتا ہے، جب تک وزیراعظم پر سو فیصد الزامات کی تصدیق نہ ہو سخت فیصلہ نہیں دے سکتے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم وزیر اعظم کی پوری زندگی کی اسکروٹنی نہیں کریں گے، آپ نے خامیاں بتا دیں، اب دستاویزی ثبوت پیش کریں۔ پراپرٹی ٹیکس کے معاملات ہمارے پاس نہیں، ہم آپ سے پرامید ہیں کہ وزیر اعظم کے جوابات پر اعتراضات اٹھائیں گے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹھوس دستاویزات دیں جس سے کمیشن تشکیل دیں جو کمیشن بنانا ہے اس کو یہ ثابت کرنے دیں کہ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دونوں فریقین کہتے ہیں کہ لندن فلیٹس آف شور کمپنی سے خریدے گئے دوسری جانب سے کھلم کھلا موقف آیا ہے کہ فلیٹس حسن نواز کے ہیں وزیراعظم کی فیملی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گلف سٹیل ملز بنائی قرضے لئے قطری فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی جوائنٹ بزنس وینچر کے تحت لندن کے فلیٹس خریدے گئے جس کی ٹرسٹی مریم نواز ہے کہ اگر وزیراعظم کے بچوں کا موقف ثابت ہوگیا تو آپ کا دعوی فارغ ہوجائے گا اب یہ آپ کا کام ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کی دستاویزات دیں اور ثابت کریں کہ ان کا دعویٰ جھوٹا ہے ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے بیانات دیئے گئے ہیں مگر ہمیں بتایا جائے کہ منی ٹریل میں کیا تضاد ہے کیس کی مزید سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔ حامد خان نے وزیر اعظم کے دونوں بیٹوں کے بیرون ملک کاروبار کی نوعیت کے بارے میں سوال اٹھائے۔پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم کے بچوں کا نام پاناما لیکس میں آنے کے بعد احستاب مہم کا آغاز کیا ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نہ تو یہ بتایا ہے کہ وہ کیا کاروبار کرتے ہیں اور کہاں کرتے ہیں، سنہ 1972 میں اتفاق فاو¿نڈری کے قومیائے جانے کے بعد جب نواز خاندان دیوالیہ ہوا تو دبئی میں کاروبار کے لیے رقم کہاں سے آئی اور فاو¿نڈری جو حکومت نے کھنڈر کی حالت میں واپس کی تو اس کی بحالی کی رقم کہاں سے آئی؟ ایک موقع پر ججوں کی برہمی بھانپتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ چلیں اب بات لندن فلیٹس کی کرتے ہیں تو جسٹس عظمت نے کہا کہ ‘آپ کو اس پر دو ہزار سال پہلے آ جانا چاہیے تھا۔ آپ ڈھائی گھنٹے سے کیس آگے نہیں لے جا رہے ہیں۔ آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کسی تقریر کی بنیاد پر کیا کچھ ہوسکتا ہے؟’چیف جسٹس انور جمالی نے کہا کہ ایک گھنٹے کے بعد بھی ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ان سے کہاں کہ نواز خاندان کی دستاویزات پکڑیں اور کچھ نکالیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے آج سماعت شروع کی تو ایک مرتبہ پھر ایک درخواست گزار طارق اسد سے دس منٹ تک دوبارہ بحث کی جن کا دوبارہ موقف تھا کہ وزیر اعظم کے علاوہ دیگر پانچ چھ اہم شخصیات جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں تحریک انصاف کی شواہد پر مبنی دستاویزات کو غلط اور ناقابل قبول قرار دیا گیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے، عمومی الزامات لگائے گئے ہیں جنھیں وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے لیے عدالت میں بظاہر کافی سخت دن تھا۔ جج ان کی کسی بھی بات کو سنجیدہ کوشش نہیں مان رہے تھے۔ عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔