تازہ تر ین

” یہ ون ڈے نہیں ٹیسٹ میچ ہے “ ” عمران خان کو نئی سوچ ، نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی “ نامور لکھاری ضیا شاہد کا دبنگ کالم

سیاسی جماعتوں کو بہر حال اپنی پوری توجہ پارلیمنٹ کے اندر سیاسی لڑائی پر مرکوز کرنی چاہئے اور پارلیمنٹ کے باہر جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور دھرنوں سے عوام کو موبلائزر کرنا اُن کا جمہوری حق ہے لیکن سب کچھ بند کر کے کہیں امپائر کی اُنگلی کا انتظار کرنا اور 2018ءکے الیکشن سے پہلے سیاسی نظام پر کسی غیر جمہوری یلغار کی توقع کرنا محض خام خیالی ہو گی، باقی سیاسی جماعتیں تو آپس میں مکمل طور پر مُک مکا کر چکی ہیں اور اکثر نے اُسی تنخواہ پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ ایوانِ اقتدار سے ملنے والی چھوٹی موٹی ”غذائی“ امداد پر صابر و شاکر ہو چکی ہیں۔ دو ایک بڑی سیاسی قوتیں اپنے لئے مزید مراعات کے حصول کے لئے پریشر ڈالتی رہتی ہیں لیکن عمران یاد کریں کہ جب وہ اور اُن کے ساتھی اس خوش فہمی میں تھے کہ بلاول بھٹو ساتھ والے کنٹینر میں سوار ہوں گے اور حکومت کے خلاف برسرِ پیکار قافلے کا حصہ بن جائیں گے، کیا یہ خیال اَب باطل ثابت نہیں ہو چکا۔
عمران نے ہمیشہ کھیل میں ہاری ہوئی پوزیشن میں بھی حوصلہ پکڑا ہے اور بہت سے میچ جیتے، آج ایک بار پھر اُسے نئی سوچ، نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی، 2018ءتک ابھی کافی وقت ہے اگر وہ فائنل میچ بھی جیتنا چاہتا ہے تو نئے پاکستان کے اِس دعوے دار کو علامہ اقبال کا یہ مصرعہ یاد رکھنا چاہئے۔
پُرانی سیاست گری خار ہے
میرا دوست عمران بہر حال پُرانی سیاست گری میں گھر گیا ہے، اُسے نئی سوچ نئی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی بالخصوص اُن انتہا پسندوں سے بچنا ہو گا جو اُس کے بے شمار حامیوں کو ریاستی مشینری کے ذریعے کچلوانا چاہتے ہیں۔ اپنی طاقت کو مجتمع کرنا 2018ءتک اپنی منصوبہ بندی، کو نئے خطوط پر استوار کرنا بالخصوص آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنی سیاسی قوت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا لازم ہے بہر حال تمہاری زبان میں بات کریں تو یہ وَن ڈے نہیں ٹیسٹ میچ ہَے اِسے ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلو‘ ون ڈے کی طرح نہیں‘ یہ بار بار فائنل جنگ کا اعلان کرنا اور بعد میں اپنے ساتھیوں اور مداحوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دینا تمہارے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ بالخصوص برسراقتدار جماعت اور اس کی بظاہر اپوزیشن کی دعویدار پارٹی اور اس کے حلیف پاک فوج کو سیاسی طور پر ہرگز ہر گز سامنے آنے نہیں دیں گے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر ترکی میں عوام کو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے سچے یا جھوٹے دعوے سنائے جا رہے ہیں۔ عمران بہت سے بنیادی مسائل کے بارے میں اکثر خاموش رہتا ہے‘ کشمیر میں ظلم و ستم پر بھی وہ رسمی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتا‘ بھارتی دشمن کی طرف سے پاکستان دشمن پراپیگنڈے کی طرف سے بھی وہ منقار زیر لب ہے۔ وہ کرپشن کے سوا کسی موضوع پر عوام کو منظم کرنے کیلئے تیار نہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں اوپر ہی نہیں نیچے بھی تھانہ‘ کچہری‘ سرکاری دفتر‘ سکول‘ کالج‘ محکمہ نہر اور مقامی اداروں تک کرپشن کم و بیش ذہنی طور پر قبول کی جا چکی ہے اور اکثر لوگوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ افسر ہوں یا سیاستدان‘ چھوٹی موٹی کرپشن تو سب کرتے ہیں۔ لہٰذا پہلے الیکشن دھاندلی اوراب صرف کرپشن‘ ہر گز ایسے موضوعات نہیں جن پر قومی سیاست کی بنیاد رکھی جا سکے۔ میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ تھوڑی بہت کرپشن تو حکومت ہی نہیں اپوزیشن میں بھی موجود ہے اور اگر کرپشن کے نام پر کسی ببرشیر کو بھی شکار کرنے میں کامیابی ہو جائے تو کیا اس گلے سڑے نظام‘ لوٹ مار میں لتھری ہوئی سرکاری مشینری‘ وسائل رزق کی یکساں تقسیم‘ میرٹ کا نظام‘ غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ‘ بیماری اور ناداری میں انسانوں کی حد سے گر کر جانوروں کی طرح زندگی گزارتی ہوئی پبلک‘ کیا انہیں سیاسی‘ معاشی اور عدالتی انصاف مل سکے گا‘ معلوم نہیں گزشتہ چند برسوں سے عمران کے گرد کونسا تھنک ٹینک کام کر رہا ہے جو اس کی مستعدی‘ محنت اور لگن کو عوام کیلئے متبادل نظام حیات اور نظام عدل کے لیے کوئی پروگرام وضع کرنے کے ناقابل ہے۔ میرا تعلق دیہاتی علاقے سے ہے‘ میرے اکثر عزیز رشتہ دار ابھی تک دیہات میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاشتکار ہیں‘ عمران کو پسند ہو یا نا پسند‘ پنجاب کے دیہات و قصبات میں آج بھی مسلم لیگ ن کی برتری مسلم ہے اور تحریک انصاف کو ہرگز ہرگز وہاں متبادل سیاسی قوت نہیں سمجھا جاتا۔ کبھی عمران کے پالیسی سازوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے کوئی بڑا منصوبہ یا بڑی پالیسی بنائی‘ گزشتہ ماہ ایڈیٹروں کی تنظیم کے ساتھ مجھے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا‘ انہوں نے یقینا خیبر پختونخوا میں کچھ نئے کام کیے ہیں‘ لیکن کیا سندھ‘ بلوچستان بالخصوص پنجاب میں ان کاموں سے عوام واقف ہے‘ ہمارے چند ساتھیوں کے سوالوں کے جواب میں پرویزخٹک نے کہا کہ ہمارے پاس اپنے کاموں کی پبلسٹی کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سالانہ بجٹ چند کروڑ سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ پنجاب میں ہر سکیم کا تشہیری بجٹ کروڑوں نہیں اربوں تک پہنچتا ہے۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس کمی کو دور کریں اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف صاحب کی تعریف کی کہ وہ نہ صرف ہر پراجیکٹ پر ذاتی طور پر محنت کرتے ہیں بلکہ ہر مرحلے پر ہر سکیم کی زبردست پروجیکشن کے بھی ماہر ہیں۔ وسائل کی کمی کو دور کرنا خیبر پختونخوا کی حکومت کا فرض ہے‘ لیکن ایک صوبے میں کیے جانے والے کامیاب اقدامات پاکستان بھر کی عوام تک بہرحال نہیں پہنچ سکتے اور نہ تحریک انصاف عوامی زبان میں کسی ایسے متبادل نظام کی امید دلا سکتی ہے‘ جو ان کے مسائل حل کر دے گا۔
مجھے عمران کی سیاست میں آمد والی رات یاد ہے‘ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ اپنے اندر کے بعض طبقات کو ناراض کرنے کیلئے تیار نہیں حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو جس کی سندھ میں تمام نشستیں وڈیروں پر مشتمل تھیں لیکن پنجاب میں اس کا سیاسی پیغام وڈیروں‘ جاگیرداروں کے خلاف تھا جس پر پنجاب کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں نے لبیک کہا۔ آخر عمران پنجاب کے ایک عام آدمی کے دل تک کیوں نہیں پہنچ سکا‘ وہ اشرافیہ کے خلاف لڑتا ہے‘ آواز بلند کرتا ہے‘ لیکن خود اشرافیہ میں گھرا ہوا ہے اور ابتدائی برسوں کی مسلسل ناکامیوں کے بعد وہ خود اشرافیہ کا دست نگر بن چکا ہے۔ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لوگوں کے سوا میں نے کسی غریب‘ محروم‘ مظلوم بالخصوص دیہاتی اور قصباتی لوگوں میں سے کبھی یہ نہیں سنا کہ عمران آئے گا تو ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ آپ صرف گڈ گورننس کے وعدے پر لوگوں کو موبلائز نہیں کر سکتے جب تک گلے‘ سڑے نظام اور تباہ شدہ سرکاری مشینری کو درست کرنے کا واضح منصوبہ آپ کے پاس نہ ہو۔ عمران تم کتنے مہینے نوازشریف کے پانامہ لیکس کے حوالے سے کرپشن کو نشانہ بناتے رہے مگر آزادکشمیر کے الیکشن میں ووٹروں نے ٹوٹ کر میاں صاحب کو ووٹ دیئے‘ جو نریندر مودی سے ذاتی دوستی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ بھارت کا ”مفتوحہ“ علاقہ پاکستان کا حصہ ہو‘ الیکشن جیتنے کے بعد مظفرآباد میں پہلی تقریر کو غور سے سنیں جس کی ریکارڈنگ آپ کو مل جائے گی۔ نوازشریف کے اس اعلان پر کہ آزادکشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ راستوں اور سڑکوں کی خرابی ہے جب وزیراعظم نے اعلان کیا کہ یہاں موٹروے کا آغاز ہو گا تو کتنی تالیاں بجی تھیں اور سننے والوں نے اس وعدے کو کس قدر سراہا تھا۔ یوں لگتا تھا نوازشریف پر سارے کرپشن کے الزامات کشمیری لوگوں نے مسترد کر دیئے اور اگر یہ الزامات درست تھے تو بھی ووٹر یہ پیغام دے رہے تھے کہ آپ کے جو جی میں آئے کرو‘ ہماری سڑکیں بناﺅ‘ ہمارے علاقوں میں صنعتیں لگاﺅ‘ ہمیں خوشحالی کی طرف لے کر چلو‘ میرے خیال میں میرے بھائی شیخ رشید کے ایسے مشوروں کی عمران کو اتنی ضرورت نہیں کہ فلاں تاریخ کو چڑھائی کرو اورفلاں تاریخ تک حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain