اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو بری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ محض اعتراف پر کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ ملزم کے اعتراف جرم کے بعد استغاثہ کا کام ختم نہیں ہوتا۔ قتل کا کام ختم نہیں ہوتا۔ قتل کے ملزم اللہ وسایا کی عمر قید کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تو اپیل کنندہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے اعتراض جرم کے علاوہ استغاثہ کے پاس جرم کا اور کوئی ثبوت نہیں لیکن تفتیش کے دوران ملزمان سے اعتراف جرم کے علاوہ استغاثہ کے پاس جرم کا اور کوئی ثبوت نہیں لیکن تفتیش کے دوران ملزمان سے اعتراف جرم کیسے کروایا جاتا ہے وہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ محض اعتراض جرم پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ جب ملزم نے قتل کا اعتراف کیا تو پھر دیگر ثبوتوں کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ اس پر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا اعتراف جرم کے بعد استغاثہ کا کام ختم نہیں ہوتا۔ پہلے ثبوت لائے جاتے ہیں اس کے بعد ملزم کے بیان کو دیکھا جاتا ہے۔ عدالت کسی کے اعتراف جرم پر اسے پھانسی پر نہیں لٹکا سکتی۔