کانز(ویب ڈیسک) فرانس میں سجنے والے فلمی میلے کانز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام خاتون یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ڈوب کر مرنے اور پھر بھوت بن جانے والے پناہ گزین کی کہانی کے ساتھ اعلیٰ ترین اعزاز ‘پام ڈور’ کی دوڑ میں شامل ہوگئیں۔میڈیاکے مطابق 36 سالہ میٹی ڈیوپ، سینیگال کے آرٹسٹ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی پرورش فرانس میں ہوئی ہے، معروف ڈائریکٹر جبرل ڈیوپ ان کے عزیز اور والد ویسس ڈیوپ موسیقار ہیں۔اپنی فلم ’ایٹلانٹس‘ کے ریڈ کارپٹ پریمیئر کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے سے سینیگال میں مختصر فلمیں بنا رہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ان دنوں سینیگال کے داراحکومت ڈاکر میں رہ رہی تھیں جب وہ اس پیچیدہ اور حساس حقیقت سے روشناس ہوئیں جسے ’غیر قانونی ہجرت‘ کہتے ہیں۔میٹی ڈیوپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب انہوں نے فلم مکمل کرلی تو انہیں محسوس ہوا کہ ایسے بہت سے راستے اور مسائل ہیں جنہیں وہ تلاش کرسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ ایک نوجوان خاتون کے نقطہ نظر سے سمندر میں غائب ہوجانے والے نوجوانوں کی کہانی بتاﺅں۔اس مقصد کے لیے میتی نے رومیو جولیٹ کی کہانی کا انتخاب کیا جس میں مافوق الفطرت واقعات کا تڑکا بھی ہے۔ان کی ہیروئن کا نام ادا ہے جو ڈاکر کے ایک پسماندہ ضلع میں رہتی ہے جس کے والدین اس کی شادی ایک امیر نوجوان سے طے کردیتے ہیں لیکن وہ سلیمان سے محبت کرتی ہے جو ایک بلڈر ہے اور ایک کرپٹ ڈویلپر نے اس کی تنخواہ روکی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے سلیمان اور اس کے دوست فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل صرف یورپ میں بن سکتا ہے اور ایک مشینی کشتی میں سوار ہو کر ایٹلانٹک روانہ ہوجاتے ہیں۔جس کے بعد کشتی ڈوبنے اور اس کے تمام مسافروں کی ہلاکت کی اطلاع گھر پرآتی ہے لیکن ادا یہ بات ماننے سے انکار کردیتی ہے کہ سلیمان مرچکا ہے۔جس کے بعد سلیمان اپنے دوستوں کو علاقے میں کئی جگہ نظر آتا ہے اور ادا کو بھی موبائل پر پراسرار پیغامات ملتے ہیں اور بہت سے لوگ ناقابلِ فہم بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کے بعد سلیمان کی روح ایک پولیس والے کے جسم میں آجاتی ہے۔مرنے کے بعد محبت کی اس کہانی کو بھرپور سراہا گیا اور اس کا موازنہ 1990 کی فلم ’گھوسٹ’ سے کیا جارہا ہے۔لیکن اس فلم میں پناہ گزینوں کے بحران کی عکاسی سے اس کی سیاسی قدر و قیمت اور اخلاقی ضروریات میں اضافہ ہوا ہے۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یورپی ممالک کے ساحل تک پہنچنے کی کوشش میں تقریباً 2300 افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے۔کانز ایوارڈ کے لیے اپنی نامزدگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک سیاہ فام عورت ہونے کے ناطے میں بہت شدت سے سیاہ فام کرداروں کی کمی محسوس کرتی ہوں اور اسی لیے میں نے یہ فلم بھی بنائی، میں اسکرین پر ہر جگہ سیاہ فام افراد کو دیکھنا چاہتی تھی’۔