لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قطر کی طرف سے جو سرمایہ کاری آئی ہے اس کی وجہ سے ایک بہتر شکل پیدا ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ کافی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اور اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ضرورت روزگار کی ہے یہ ایک نعمت غیر مترکبہ ہے جو اس وقت امیر قطر نے آ کر پاکستان کو ایک طرح سے تحفہ میں دی ہے۔ یہ جو عمران خان صاحب جو کہہ رہے ہیں کہ اچھا دور آ رہا ہے لگتا یہی ہے کہ اچھا دور آنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا ک لگتا ہے کہ ملک دوبارہ پٹڑی پر چڑھ رہا ہے۔ حنا ربانی کھر صاحبہ نے اسمبلی میں کہا ہے کہ وزیراعظم ہا?س کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا مگر یونیورسٹی کے لئے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا اس پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ہونا تو یہی چاہئے تھا زیادہ ہوتا کہ اس قسم کے معاملات میں زیادہ غوروفکر سے کام لینا چاہئے اور اس قسم کے معاملات میں بہت ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ بلاول بھٹو کی تقریر کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ اعتراضات ہی بجٹ کے سیشن میں اس قسم کے اعتراضات کرتے رہے ہیں مراد سعید کی تقریر میں بتایا گیا کہ سابقہ حکومت نے سٹیل مل، ریڈیو پاکستان کی عمارت کو گروی رکھ کر قرضہ لے لیا۔ اس پر گفتو کرتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ میرے خیال میں جب یہ بحران شروع ہوا تھا کہ مختلف پراجیکٹس بنانے کے لئے قرضے لئے جائیں تو مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ لاہوہر کے ریلوے سٹیشن کے بارے میں تجویز آئی تھی کہ اس کو بھی کسی بنک کے ہاتھ بیچ دیا جائے اس سے جو پیسے ملیں اس کو ریلوے کی کسی بہتری کے لئے خرچ کیا جائے جس طرح سے مراد سعید نے کہا ہے کہ تقریباً ہر میٹرو کی جو بس ہے وہ بھی پلج ہے ڈائیوو بھی پلج ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا تو کچھ بھی نہیں بنایا پہلے سے جو پڑی ہوئی اس کو ہر قرصہ لے کر ہم مختلف کمرشل بنکوں کے پاس رہن رکھوا کر ان سے پیسہ لے کر ان سے اپنے کاروبار چلائے۔ سابقہ حکمرانوں نے اس ملک کی ہر چیز کو گروی رکھ دیا اس پر قرضہ لے لیا اور اس کے باوجود ہم قرضے سے ڈوبے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو تہیہ کر لینا چاہئے کہ کتنی ہی مشکلات ہوں اس روش پر نہیں چلنا چاہئے۔ اگر ہم اس طرح قرضے لے کر اللوں تللوں پر اڑاتے رہیں گے تو پھر اس قرضوں کے گرداب سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کی سیاست میں بہت پارٹ پلے کیا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ ہی ہر دور میں حکومت سازی کے لئے کوشش کی ہیں۔ آخری کوشش دیکھ لیں کہ حسین حقانی جو آصف علی زرداری کے دست راست تھے اور انہوں نے ان کے ماتحت پھر جو میمو سکینڈل تھا۔ میمو سکینڈل یہ تھا کہ پاک فوج کے اپنی مرضی کے کچھ لوگوں کو رکھوا دیا جائے جو بباطن تو اندر سے امریکہ کے ہوں اور بظاہر وہ پاکستان کے ہوں۔ حسین حقانی اب بھی اس قسم کی تھیوریاں دیتے رہتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ دور ختم ہو گیا اور اللہ نہ کرے کوئی اور حسین حقانی آئے۔ اب بات سامنے امریکی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر سے آصف زرداری نے ملاقات کی ہے اور حسین حقانی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہوتا ہے میں نہیں سمجھتا کہ حسین حقانی صاحب کو ضرورت تھی میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بکے ہوئے ذہن جو ہوتے جو فروخت شدہ دماغ ہوتے ہیں وہ ہمیشہ محکومی کی بات کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس طرح پاک فوج کے عہدیداروں کو جو ہے امریکہ ہی کی اشیرباد سے پاک فوج میں انسٹال کروا دیں تو پھر ہر ملک ہی امریکہ کا ہو جائے گا۔ وہ کلیہ تھا جس پر حسین حقانی کام کر رہے تھے۔ اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہئے ایک دم ہمیشہ کے لئے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ حب الوطنی کا ثبوت دیں اور اپنے پاکستان کے لئے ہر وہ کام کریں جس سے پاکستان کی زمین کے اندر اور اوپر جو کچھ بھی ہے وہ صرف پاکستان کا ہو۔ امریکہ نے عالمی مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ بھارت میں مودی حکومت کی سرپرستی میں مذہبی دہشتگردی پچھلے دو سال سے عروج پر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک تہائی ریاستوں میں گائے کے ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ دودھ، دہی چمڑے سے وابستہ لوگ تھے ان پر نہ صرف تشدد کیا گیا ہے بلکہ ان کو قتل بھی کیا گیا ہے اور جھوٹی رپورٹوں پر ایسا کیا گیا ہے امریکہ کی بھارت کے حوالہ سے رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ یہ رپورٹ دنیا کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے کہ اس لئے کہ بھارت ایک مدت سے پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ ہم ایک سیکوولر ہیں ہم تو مذہب کی تفریق کے قائل نہیں جوں جوں اب مختلف رپورٹریں سامنے آ رہی ہیں اندرونی کہانی سامنے آ رہی ہے ان کی ذہنیت سامنے آتی ہے ان کی پالیسیاں سامنے آتی ہیں اور ان کے چھپے ہوئے عزائم سامنے آتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ٹھیک ہے قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ ہمیں کٹا پھٹا پاکستان مل گیا ہے لیکن وہ اس پر بھی کہہ رہے تھے کہ یہ بھی شاید نہ ملتا اس لئے کہ اگر دو قومی نظریے کے تحت پاکستان الگ نہ ہوتا تو پھر آپ تصور کر لیجئے گا کہ آج انڈیا جیسے ملک میں جو 5 گنا زیادہ ہے ہم سے اس کے اندر 22 کروڑ مسلمانوں کی حالت ہے وہی حالت پاکستان میں مسلمان ہیں ان کی ہونی تھی اگر متحدہ ہندوستان کے تحت ہوتا۔ انڈیا کی جو دہشت گردی مہاراشٹر کے اندر، مدھیہ پردیش کے اندر کرناٹک، راجستھان کے اندر، گجرات کے اندر صورتحال کھل کر سامنے آ چکی ہے یہ واحد رپورٹ نہیں جس میں بھارت کی مذہبی دہشت گردی نہ کی گئی ہو۔ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا بہت طاقتور ہو رہا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ انڈیا طاقتور نہیں کمزور ہو رہا ہے اس لئے کہ جس فلاسفی پر انڈیا پوری دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کلیم کرتا تھا اور اپنے آپ کو یہ کہتا تھا کہ ہم تو مذہب نہیں مانتے۔ ہم تو سب مذہبوں کو برابر رکھتے ہیں اب وہ ان کا مذہب کا برابر رکھنا کیسے ہو گیا جب وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے۔ دیکھا کہ وہاں کسی کو ٹکٹ نہیں دیتے لوک سبھا کا وہ کسی کو آگے نہیں آنے دیتے۔ اب آہستہ آہستہ بھارت میں یہ محسوس ہوتا جا رہا ہے کہ یہ تو ایک ہندو سٹیٹ ہے یہ بات معمولی نہیں ہے یہ دوررس نتائج کا حامل معاملہ ہے۔ جو صورتحال اس وقت ہے اس کا نتیجہ آپ کو اگلے 10,5 سال بعد ملے گا، کیونکہ انڈیا کے اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے پاکستان بنانے کا مطالبہ پیش آ جائے گا۔ مودی کی پالیسیاں رفتہ رفتہ لوگوں کو احساس دلا رہی ہیں کانگریس کے زمانے میں کتنے ایکٹروں نے، صحافیوں، دانشوروں نے شاعروں نے اسکالرز نے خواتین نے اور کتنے لوگوں نے جو ہندو تھے انہوں نے کہا کہ ہم کھائیں گے گائے کا گوشت لیکن اس کے باوجود یہ دیکھئے کہ ہندو سٹیٹ ہے اس نے ان کو اجازت نہیں دی۔ ہندو مذہب کمزور ہو رہا ہے وہ اس سے مضبوط نہیں ہوا ہے۔ اب انڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے ایک وہ انڈیا جو زبردستی اپنے آپ کو ایک ہندو سٹیٹ کہلا رہا ہے اور دوسرا وہ انڈیا جس کے تار و لوگ رہنے والے جو ہیں خود وہاں کے سرکاری پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں وہ نہیں چاہتے وہ گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ وہ وہاں پاکستان کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں وہ وہاں فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ وہاں فلمیں بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح انڈیا کی تنگ نظری اور تعصب شکست کھا رہا ہے۔امریکہ ایران سے مذاکرات کی پیش کش کر رہا ہے اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ پہلے تو اندازہ یہی تھا کہ ٹرمپ اپنی فطری جلد بازی کی وجہ سے جلدی اعلان جنگ کر دیں گے لیکن وقت نے انہیں تھوڑا سا کچھ سوچ سمجھ کر کام کرنے کا انداز سکھایا ہے البتہ اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہ ایران پر وہ بہت زیادہ پابندیاں لگائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں یہ بحث چل رہی ہے یہ بحث پچھلے چیف جسٹس کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں دیکھئے ایجنسیاں جو ہیں وہ ڈیزائننگ کرتی ہیں اور اشتہارات کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن اشتہارات کے پیسے ان کو دے دیئے جاتے ہیں اور وہ 85 فیصد کی مالک بھی وہ ایجنسی بن جاتی ہے ہم یہ کہہ رہے ہیں اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے کہ بھی کہا ہے کہ ہم اس بات پر قائم ہیں ہم جو اخبار کا حصہ ہے وہ اخبار کو براہ راست دے دیا جائے اور 15 فیصد جو ایڈورٹائزنگ ہے ماڈلز کا اس کا ان کو دے دیا جائے۔ اگر یہ ہو گیا ہو تو بہت اچھا ہو گا۔ایڈیٹر خبریں اور سی پی این ای کے سینئر نائب صدر امتنان شاہد بھی اجلاس میں شریک تھے انہوں نے بھی مسائل کے حوالے سے گزارشات پیش کیں تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادہ بہتر ہو گا کہ 85:15 کے تناسب سے بزنس کیا جائے، اس سے بڑا فائدہ ہو گا۔ میرے پاس صرف ایک ایجنسی کے ساڑھے چھ کروڑ روپے کے چیک ہیں جو دستخط شدہ ہونے کے باوجود کیش نہیں ہو رہے ہم کس کے پاس دادرسی کے لئے جائیں۔ دوسری جانب اخباری ورکرز سمیت تمام ملازم بھی یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے پیسے ادا کئے جائیں۔ پیسے نہ ملنے سے جاری سرکل رک جاتا ہے جس سے بڑے مسائل سامنے آتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ تمام واجبات ادا کر دے۔ سی پی این ای نے سندھ حکومت پر بھی کیس کر رکھا ہے کہ وہاں کے تمام اخبارات کے سرکاری اشتہارات کے پیسے وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم سے لے کر اخبارات کو ادا کئے جائیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو بروقت ادائیگیاں کرتے ہیں تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔اے پی سی میں جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتیں شریک ہو رہی ہیں تاہم دیکھنا ہے کہ عین وقت پر کون پیچھے ہٹتا ہے کیونکہ ان کے دل ملے ہوئے نہیں ہیں۔ اپوزیشن کو احتجاج کرنے یا حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کا حق حاصل ہے دوسری جانب حکومت کو بھی حق حاصل ہے کو زیادہ سے زیادہ ارکان کو ساتھ ملائے۔ اب تک تو حکومت کے پاس 21,22 ارکان زیادہ ہیں۔ شہباز شریف کے خلاف 3 ارب کی منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس آ رہے ہیں۔ 5 جولائی کو نیب لاہور میں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی تو مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ دوسری شادی کے لئے مصالحتی کمیٹی کی اجازت ضروری قرار دینے کے معاملہ پر سینئر صحافی نے کہا کہ یہ شرعی فیصلے ہیں جو کچھ طے ہو جائے اس پر عملدرآمد ضروری ہے۔
