تازہ تر ین

ویڈیوکریسی کو انجام تک پہچاناضروری،عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے: معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اچھی بات ہے کہ نوازشریف اور آصف زرداری نے اگر اپنے علاج پر ضرورت سے زیادہ اخراجات کئے ہیں تو وہ یقینا ذمہ دار ہیں اور اگر ان کے اخراجات ضرورت کے مطابق ہیں تو ان پر صرف نظر کرنا چاہئے۔ یہ تو آپ کے جواب پر انحصار ہو گا کہ انہوں نے فضول خرچی کی ہے یا نہیں دیئے ماضی میں حکمران تو ایک طرف رہے ایم پی اے، ایم این اے حضرات نے بھی بہت زیادہ سہولتیں حاصل کیں ایک زمانے میں تو مشہور تھا کہ آپ نے غسل خانے کا سامان جو ہے وہ میڈیسن کے کھاتے میں ایم پی اے ایم این اے حضرات جو تھے وہ لیتے تھے۔ غریب ملک ہے اچھا نہیں لگتا ہمارے نمائندے تو ہمارے آئیڈیل ہیں ان کو ایسی پرفارمنس دینی چاہئے کہ ہم ان کی مثال دے سکیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کی ڈلیوری کے اخراجات جو تھے وہ سرکاری طور پر ادا کئے گئے تھے حالانکہ اللہ پاک نے ان کو بہت دیا تھا اور ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہ تھی لیکن دیکھا دیکھی ہر ایک نے اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ اب چیزیں سامنے آئیں گی تو پتہ چلے گا۔ یہ احتسابی عمل اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر مثال قائم ہو گی کہ آج کے حکمرانوں کو اور کل کے حکمرانوں کو کس طرح سے چلنا ہے۔ آصف زرداری کا یہ بیان کہ عمران خان کی حکومت جا رہی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان کی حکومت جا رہی ہے یا نہیں جا رہی اس کا تو فیصلہ وہ تقدیرکو معلوم ہو گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ایک پہلا بجٹ انہوں نے دیا ہے چار بجٹ انہوں نے دینے ہیں میں سمجھتا ہوںکہ انہیں حوصلے سے برداشت کرنا چاہئے اور اگر ان سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو وہ بھی اپنی غلطیوں کی تلافی کریں اور اپنی پرفارمنس کریں اپوزیشن کے حضرات بھی جس طرح میثاق جمہوریت میں بھی ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہے ہیں عمران خان کی حکومت کو بھی پانچ سال برداشت کریں کسی کو چلنے تو دیں۔ مریم نواز کی طرف سے ویڈیو کے حوالے سے تحقیق ہونی چاہئے اس لئے کہ صرف ایک ویڈیو نہیں ہے مریم نواز صاحبہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس اس سے زیادہ خوفناک ویڈیو ہے اور حامد میر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ہے کہ ایک ویڈیو ان کے پاس بھی ایک ویڈیو آئی ہے یہ ویڈیو کریسی ہو رہی ہے۔ اس کی کوئی انت تو ہونا چاہئے دوسری طرف فوج ہیں انہوں نے کہا ہے کہ میں اپنے سینئرز سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا میں بھی پریس کانفرنس کر سکتا ہو ںاس کے جواب میں۔ وہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ یہ صورت حال کوئی زیادہ خوشگوار نہیں ہے اس سے ہمارے پورے نظامِ عدل کے بارے میں خوامخواہ کے سپاٹس پیدا ہوئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اگر یہ جج والی بات میں 50 فیصد بھی صداقت ہو تو بھی فیصلہ واپس کیسے ہو سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے بارے میں ایک جج نے کہہ بھی دیا کہ ان پر دبا? تھا اس وقت وہ کہتے تھے کہ نہیں ہے اب ججوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا نسیم حسن شاہ صاحب نے بعد میں کہہ دیا کہ مجھ پر دبا? تھا حالانکہ میں نے خود ان کا انٹرویو چھاپا ہے پڑھا بھی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر ضیائ الحق صاحب کی طرف سے قطعی طور پر کوئی دبا? نہیں تھا فرض کیجئے ان کی اس بات پر کہ مجھ پر دبا? تھا تو فیصلہ کالعدم تو نہیں ہوا نہ بھٹو کے خلاف جو الزامات تھے وہ ختم کئے گئے۔ ٹھیک ہے وہ آج دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی پارٹی نے دو مرتبہ کوشش کی ہے کہ کم از کم ان پر یہ جو پھانسی کی سزا اور قتل کے الزام ہے یہ ختم ہو جائے معاف کیجئے ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہو سکے، یہ اتنا آسان نہیں ہوتا اس لئے مریم بی بی کی بات میں وزن ہے کہ کن حالات میں یہ فیصلہ ہوا اور کیا واقعی اس قسم کی کوئی بات ہے لیکن یہ کہنا کہ اس سے یہ فیصلہ کالعدم ہو جائے گا تو یہ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کے نانا، ان کی والدہ محترمہ کے والد صاحب ہیں ان کی پارٹی کے بانی قائد ہیں لہٰذا وہ جو بھی کہیں ان کو حق پہنچتا ہے لیکن اب یہ دیکھنا لوگوں کا کام ہے کہ واقعی بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ سیاست دان کے زندہ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ سیاستدان کے زندہ ہونے کا مطلب ہوتا ہے آج گلیوں سڑکوں میں ان کے لئے آواز بلند ہوتی سیاستدان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پچھلے الیکشن میں ان کو بے تحاشا ووٹ پڑتے بھٹو کے نام پر یہ دونوں کام تو نہیں ہوئے تو پھر اپنے آپ کو کتنے ہی نعرے دے کر خوش ہونا چاہتے ہیں۔ سیاست ان کی ہے پارٹی ان کی ہے وہ جو جی میں آئے۔ تقریر کریں کہ اصل پوزیشن یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ جادو جس وقت پورا پنجاب ٹوٹ پڑا تھا اور پنجاب اس کا مطیع ہو گیا وہ پوزیشن اب کہیں نظر نہیں آ رہی ہے آج مسلم لیگ، پی ٹی آئی ہے بکھرے ہوئے سیاسی گروپ ہیں مگر معاف کیجئے آج پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تو بڑی واضح طور پر اکثریت میں کسی اچھے بڑے گروپس میں نظر نہیں آ رہی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صورت حال اس طرح سے نہیں ہے جس طرح بلاول بھٹو زرداری سمجھ رہے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا اجلاس آج بلایا گیا ہے جس میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ وہ چیئرمین سینٹ کو ہٹا سکتے ہیں یا نہیں ہٹا سکتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا کوئی ملکی سیاست پر کوئی اثر پڑے گا اس لئے کہ سنجرانی صاحب نہ تو اینٹی بھٹو ہیں نہ وہ اینٹی نواز ہیں نہ پرو عمران خان ہیں۔ کسی بھی طریقے سے انہوں نے تو اپنے آپ مین ٹین کرنے کی کوشش ہے اپنے آپ کو نیوٹرل چیئرمین کے طور پر لیکن بالفرض وہ مطمئن نہیں وہ ان کو تبدیل کر لیں ان کو تبدیل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اچانک سینٹ پر عمران مخالف لوگوں کی یہ مشکل ہو گا۔ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ سنجرانی صاحب کو گرا کر اپنا آدمی اپوزیشن لے آتی ہے تو اپوزیشن کا ہولڈ اس پر ثابت ہو گا اس لئے عمران خان نے نہ چاہتے ہوئے بھی عمران خان کی صفیں کوشش کریں گی یہ تبدیلی نہ ہونے پائے۔ حالانکہ عمران خان سنجرانی کے کوئی سپورٹر نہیں ہیں لیکن سنجرانی کی عدم موجودگی میں جس طرح سے بندر بانٹ ہونی ہے وہ ساری کی ساری بندر بانٹ جو ہے وہ اپوزیشن کے حصے میں آئے گی۔ آصف زرداری کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سینٹ میں اکثریت ن لیگ ہے اس لئے نیا چیئرمین ہو سکتا ہے ن لیگ سے ہو اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ راجہ ظفر الحق ایک اچھا نام سامنے آ رہا ہے۔ جو بھی ہوں منتخب بندہ جو بھی ہو اس کی عزت اور احترام ہونا چاہئے اگر ن لیگ والے ان کی جگہ کسی اور کو رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ ان پر منحصر ہے جہاں تک زرداری صاحب کا یہ کہنا ہے کہ مستقبل بلاول اوور مریم نواز کا ہے یہ ان کا خیال ہے میرا خیال ہے ان کے ساتھ ساتھ مستقبل عمران خان کا بھی ہے۔ اور فی الحال تو نظر آتا ہے کہ ان کی حکومت چلے گی۔ن لیگ میں اختلافات نہیں شخصیات کا ٹکرا? ہے، شہباز شریف کو اس کا صدر بنایا گیا تھا کہ پارٹی معاملات بھی ان کے سپرد کرنا چاہئیں تھے۔ مریم نواز نے الگ راستہ اختیار کر لیا ہے جس کے باعث شہباز شریف کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ مریم کی ویڈیو بارے پریس کانفرنس میں شہباز شریف خاموش نظر آئے بجٹ پر بحث کے دوران شہباز نے میثاق معیشت کی بات کی تو مریم نے اسے مذاق معیشت قرار دیا۔ مریم کا سیاست میں اتنا تجربہ نہیں جتنا شہباز شریف کا ہے تاہم انہیں نوازشریف کی بیٹی ہونے کے باعث زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ن لیگی رہنما?ں کو آخر میں یہی کہنا پڑتا ہے کہ نوازشریف ان کے قائد ہیں اسے اور قائد کی بیٹی کو وہ ماننے سے انکار نہیں کر سکتے۔ شہباز شریف مریم کی بہت سی باتوں سے متفق نہیں ہیں، داخلی اختلاف رائے موجود ہے اور نظر بھی آ رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پارٹی مریم کو نہیں چھوڑ سکتی اور مریم کھل کر شہباز شریف کے خلاف علم بغاوت نہیں کر سکتی، ڈنگ ٹپا? کام چل رہا ہے تاہم یہ زیادہ دیر چلنے واا نہیں ہے کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو دونوں ایک ساتھ نہیں ہوں گے۔ ویڈیو سیاست ابھی جاری رہے گی۔ میری دانست میں ویڈیو کا سپریم کورٹ کی نگرانی میں فرانزک ہونا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا نوٹس لینا ہی زیادہ بہتر ہو گا۔ عدالتی تحقیقات کرانا بہتر ہو گا اگر ایگزیکٹو کوئی تحقیقاتی کمیشن بناتی ہے تو الزام لگایا جائے گا کہ جانبداری برتی جا رہی ہے۔ مریم نواز کو عدالت سے ملنے والی سزائیں ان کے سیاست کرنے پر ان کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کر دی گئی ہے ابھی وہاں سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ مریم نواز سے پوچھا جانا چاہئے کہ ویڈیو انہوں نے اتنی دیر اپنے پاس کیوں رکھی اور اس کو قانونی شہادت کے طور پر عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain