لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) بہاولنگر کے نواحی گا?ں منڈی مدرسہ آر ایچ سی ہیلتھ سنٹر کی سٹاف نرس سمیرا صوفی نے بہاولنگر کے خبریں بیورو آفس سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ عرصہ دس سال سے تعینات ڈاکٹر شاہد اور ڈاکٹر رانا شمشاد اسے جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں انکار پر مجھے دھمکیاں دیتے ہیں۔دونوں ڈاکٹر ز کو ہیلتھ افسران کا آشیر باد حاصل ہے یہ دونوں لاکھوں کی کرپشن میں بھی ملوث ہیں جبکہ ڈاکٹر رانا شمشاد لڑکیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی جنہوں نے ایکشن لیا اور سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر وسیم کو انکوائری سونپ دی، لیکن انکوائری مکمل نہیں ہوئی۔ چینل فائیو کے پروگرام ہیومین رائٹس واچ میں گفتگوکرتے ہوئے آغا باقر نے بتایا کہ پاکستان میں قانون ہے کہ کام کرنے والی جگہ دفاتر وغیرہ میں کوئی خاتون کو ورغلانے کی کوشش کرے تو یہ قابل سزا ہے۔خاتون کی درخواست اسلام آباد یا لاہور جانی چاہئے اور کیس کو منتقی انجام پر پہچانا چاہئے۔لوگ ڈاکٹرز کو مسیحا سمجھ کر ان کے پاس جاتے ہیں تمام ڈاکٹر تو برے نہیں ہوتے لیکن کچھ کے شیطانی افعال بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔خبریں کی ٹیم نے جب مذکورہ ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تو انہوںنے موقف نہ دیا۔اس وقت ایسے بیشتر کیسز موجود ہیں ان کی انچارج کشمالہ طارق ہیں۔خاتون نے مجبور ہوکر شکایت کی ہماری ٹیم خاتون کی بغیر معاوضہ مدد کو تیار ہے۔ہر محکمے میں بہت درخواستیں موجود ہیں لیکن ایکشن نہیں ہوتا۔بہت سے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔وفاقی محتسب برائے ہراسگی کے پاس جتنی درخواستیں زیر التوا ہیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ایسے کیسز میں ہائیکورٹ بھی جایا جا سکتا ہے۔کیسز میں کمزور کے حق میں ادارے نہیں آتے۔ایک خاتون اپنی عزت بالائے طاق رکھ کر آواز اٹھاتی ہے اس سے بڑی کیا بات ہو گی۔آئین پاکستان سب کو احترام دیتا ہے جس کام کے لئے تعیناتی ہو اس سے ہٹ کر کام نہیں لیا جا سکتا۔ ہمارا ہیومین ورائٹس واچ کا پلیٹ فارم خاتون کے ساتھ ہے۔ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہئے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا کہ جنسی ہراسانی کے حوالے سے یہ کیس صوبائی خاتون محتسب کو جانا چاہئے۔ جبکہ ہمارے پروگرام کی ٹیم بھی خود جا کر یہ شکایت لاہور میں خاتون محتسب کو دے سکتی ہے۔ہمارے معاشرے میں بے عزتی کے خوف سے خواتین جنسی زیادیوں کو سامنے نہیں لاتیں۔حیرت ہے موجودہ کیس میں شکایت کے باوجود ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے بچی کو مجبور کرنے کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ کیس پولیس کو ریفر کیا جا سکتا تھا۔میری درخواست ہے ڈپٹی کمشنر فوری لاکھوں کی کرپشن سمیت بچی کو ہراساں کئے جانے کا نوٹس لے کر کارروائی کریں وہ کس لئے خاموش ہیں یا انہیں سفارش پہنچ گئی ہے یا کسی نے رشوت پیش کی ہے۔ انہیں تو اپنے مرتبے کا خیال ہونا چاہئے کیوں ڈاکٹر کی حمایت کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں لاہور ہائیکورٹ میں مجھے شکایت کنندہ بنا کر آغا باقر اس قسم کے کیسز پر رٹ دائر کریں جس میں ڈی سی او بہاولنگر کو پارٹی بنایا جائے خاتون محتسب کو بھی پارٹی بنایا جائے جس نے کارروائی نہ کی آخر یہ کیا کر رہے ہیں جب انصاف نہیں فراہم کرنا تو کیوں بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کا فرض تھا فوری کاپی خاتون محتسب کو پہنچاتا دوسری سیکرٹری ہیلتھ کو ریفر کرتا۔جب تک انکوائریوں کی مدت کا تعین نہیں ہو گا پاکستان کے حالات درست نہیں ہو سکتے۔تین ہفتوں میں انکوئریاں ہونی چاہئیں لیکن انکوائری سالوں لٹکی رہتی ہے۔ہم اپنے رپورٹر کو کہتے ہیں متعلقہ دفاتر کو شکایت کی کاپی بھیجیں ایک کاپی ہمیں بھی دیں۔ انسانی حقوق کے لئے کشمالہ طارق کے اتنے آفسز پھر خاتون محتسب کا ہونا اس سب کا کیا فائدہ اگر بچی بہاولنگر میں بیٹھ کر رو پیٹ رہی ہے۔کشمالہ طارق کو تو استعفی دینا چاہئے وہ اس لئے بیٹھی ہوئی ہیں ایک سابق وزیر نے انہیں بٹھا دیا تھا ہمیں کوئی تکلیف نہیں لیکن کشمالہ طارق کام کرتی نظر نہیں آتیں۔میری اپنی اطلاعات کے مطابق سرکاری ملازمت میں خواتین کو مردوں سے شکایات ہوتی ہیں لیکن کوئی ایکشن کبھی نہیں ہوتا۔متاثرہ نرس سمیرا ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے رہی ہے کیا اس کے اردگرد موجودہ لوگ اندھے، بہرے یا گونگے ہیں مدرسہ چھوٹی سی جگہ ہے لوگوں کو کچھ پتہ نہیں چلتا ان کے ضمیر کہاں ہیں کیا لڑکی ان کی بیٹی نہیں مدرسہ میں رہنے والے نماز بھی پڑھتے ہوں گے کیا نمازیں یہی سکھاتی ہیں کیا اللہ نہیں پوچھے گا جب ظلم ہو رہا تھا تم کہاں تھے نبی کریم نے فرمایا برائی کو ہاتھ سے روکو یا زبان سے برا کہو یا کم سے کم دل میں تو برا جانو۔جو ڈاکٹر لڑکیوں کو لے کر گھومتے ہیں انہیں چاہئے ان دو ڈاکٹروں کی چھترول کریں کیا سارا بوجھ ڈپٹی کمشنر پر لادنا ہے۔سب سے بڑی طاقت عوام ہیں وہ ان دو بدمعاش ڈاکٹرز کو چاہیں تو مدرسہ سے باہر کر سکتے ہیں۔