لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سرتاج عزیز کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مکمل وزیر نہیں بلکہ مشیر ہیں اس لئے انہیں جو کچھ لکھا یا پڑھایا جاتا ہے اسی کے مطابق بولتے ہیں۔ ان کی اس بات سے قطعی اتفاق نہیں کرتا کہ اس وجہ سے بھارت گئے کہ پاکستان کے خلاف عالمی فورم سے بھاگنے کا پروپیگنڈا نہ ہو سکے۔ دراصل وہ اس وجہ سے بھارت گئے کہ حکومت کا ایک حصہ ہر قیمت پر مودی حکومت سے تعلقات بنانا چاہتا ہے اور اس بات پر بھی بغلیں بجاتا ہے کہ مودی پاکستان میں نوازشریف کی ذاتی تقریب میں آیا۔ حکومت میں شامل دوسرا طبقہ چاہتا ہے کہ بھارت سے برابری کی سطح پر بات کرنی چاہئے اس طرح اس کے آگے سر نہیں جھکانا چاہئے کہ وہ جوتے مارے تو بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ پاکستان کی حیثیت سے ملک کی بے توقیری پر سخت دکھ ہوا، بھارت نے مشیر خارجہ کی بے عزتی کی۔ بھارت نے تو ایسا کرنا ہی تھا مشیر خارجہ کی وہ گفتگو سن کر جس میں وہ معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے معمول کا واقعہ قرار دے رہے تھے زیادہ دکھ ہوا۔ سرتاج عزیز کو وہاں نظر بند کر دیا گیا اور وہ کہہ رہے تھے کہ صرف سکیورٹی انتظامات ٹھیک نہ تھے اپنے ہی ملک کے اخبار نویسوں سے بات نہ کرنے دی گئی اس کا بھی دفاع کر رہے تھے۔ سکوں کی بڑی طرف داری کرنے والے بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ایک سکھ سکیورٹی افسر نے ہائی کمشنر عبدالباسط سے بدتمیزی کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ سکھ کبھی مسلمان کا دوست نہیں رہا نہ ہی کبھی ہو گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ سرتاج عزیز کو صاف صاف کہنا چاہئے تھا کہ بھارت جتنی بے عزتی کر سکتا تھا اس نے کئی پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگائے۔ پیپلزپارٹی کے یار غار سمجھے جانے والے افغان صدر پاکستان پر الزامات لگاتے رہے اور سرتاج عزیز دبے دبے لہجے میں کہتے رہے کہ واقعی ان کے ملک کو کچھ مسائل تو درپیش ہیں۔ افغانستان میں مسائل ہیں تو ہم اس کے ذمہ دار کیسے ہو گئے پاکستان عشروں سے لاکھوں افغان مہاجروں کا بوجھ اٹھائے ہے ہر بار ان کی مدت میں توسیع کر دی جاتی ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک کی وزارت ہے۔ جو ہمارے دشمن کے دلائل سن کر متاثر ہوتی ہے اور افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کر دیتی ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ مشیر خارجہ نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کیا وہ بھارت میں نہیں بول سکتے تھے تو تو یہاں آ کر تو بتا سکتے تھے کہ ان سے بیہودہ سلوک کیا گیا حالیہ دنوں میں کراچی جانا ہوا وہاں صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ پورا شہر کچرے میں اٹا پڑا ہے۔ شہر کا بیڑا غرق ہو چکا ہے گندگی اس قدر ہے کہ ہر قدم اٹھاتے ڈر رہتا ہے کہ گندگی میں نہ دھنس جائے۔ ہر سرکاری ادارہ غیر فعال ہے۔ اتنی بڑی بڑی بلڈنگز ہیں لیکن آگ لگ جانے یا کسی اور آفت کی صورت میں بچاﺅ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ملک میں سرکاری اداروں کی صورتحال پر تو عوام فاتحہ ہی پڑھ چکے ہیں کوئی ایک محکمہ بھی اس قابل نہیں رہا کہ اعتماد کیا جا سکے۔ قانون کی عملداری کی صورتحال یہ ہے کہ پہلے بڑھکیں مار کر میڈیا پر ”را“ کے ایجنٹ پیش کئے جاتے ہیں چند روز بعد ہی ناکامی ثبوت کہہ کر رہا کر دیا جاتا ہے۔ کیا ایسے حکومتیں چلتی ہیں۔ پیشگی بتاتا ہوں کہ بلدیہ فیکٹری میں اڑھائی سو افراد کو زندہ جلا دینے والا ملزم رحمان بھولا کا بھی کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا تعلق جس پارٹی سے ہے اس کے کتنے ہی ارکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں انہیں پسند کرتا ہوں لیکن ان کی پارٹی جس کی سندھ میں حکومت ہے۔ اسمبلی میں الطاف حسین کو غدار کہتی ہے تو چند دن بعد ہی بلاول کہتے نظر آتے ہیں کہ انکل الطاف بڑی سیاسی قوت ہیں انہیں ہم نے غدار کب کہا۔ ڈاکٹر عاصم پکڑے گئے تو جے آئی ٹی کے سامنے ہاتھ کھڑے کر کے کہتے تھے میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اب انہیں پی پی کراچی کا صدر بنایا گیا تو بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں۔ پنجاب ختم کرنے کے دعوے کرنے والے بلاول بھٹو سے اتنا ہی کہوں گا کہ 8 سال سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے کراچی کے گلی کوچوں میں جا کر دیکھیں کہ شہر کی کیا حالت ہے۔ 11 انتہائی اہم عہدوں پر رہنے والوں نے اعترافی بیانات دیئے کہ ہر شام حصہ بلاول ہاﺅس پہنچاتے ہیں۔ یہ سب ملک سے بھاگ گئے تھے اب پھر سب واپس آ چکے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کیا ابھی تک لاہوریوں کی جھلک بھی دیکھی ہے اخبار نویسوں سے بات چیت کی ہے۔ وہ وزیراعظم بننے کے دعوے کر رہے ہیں حالانکہ ابھی ان کی عمر ہی نہیں ہے کہ انہیں قانونی طور پر یہ عہدہ مل سکے۔ آصف زرداری کو ذہین ترین سیاستدان سمجھتا ہوں جس طرح انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور آرمی چیف کی گیندوں پر چھکے لگائے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سیاست کی چابی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ میری تجویز ہے کہ آصف زرداری خورشید شاہ اور رضا ربانی کو لے کر خود آگے بڑھیں اور آئین میں ترمیم کرا لیں کہ اگلے 25 سال تک وزیراعظم بلاول بھٹو ہوں گے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ملک کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، سیاسی پارٹیاں گتھم گتھا ہیں، صوبائی لیڈر دو قومی نظریے کو چیلنج کر رہے ہیں اسلام آباد میں ہر چوتھے دن معرکہ بپا ہوتا ہے۔ کیا اس ساری صورتحال کا بہتر علاج یہ نہیں کہ نوازشریف نے 30 سال حکومت کر لی ہے اب بلاول کو اگلے تیس تال دیدیئے جائیں ان کے بعد عمران خان کو بھی 10 سال دیدیں۔ پاکستان کا واحد دوست چین صرف یہاں استحکام چاہتا ہے وہ پاکستان میں ڈیڑھ سے دو سو ارب ڈالر انویسٹ کرنا چاہتا ہے اس لئے چاہتا ہے کہ یہاں حالات ٹھیک ہوں لیکن یہاں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ مردم شماری کرانے کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن چونکہ فوج اس عمل میں شامل نہیں ہو گی اس لئے پیشگوئی کرتا ہوں کہ بہت سے حلقوں میں خاص طور پر کراچی میں مردم شماری کے اعداد و شمار نہیں مانیں جائیں گے۔