لاہور(رپورٹ:حسنین اخلاق)سوشل میڈیا ویب سائٹس پر جنسی تسکین کا سامان کھلے عام بکنے لگا، خواتین کی فحش تصاویر کے ساتھ ان سے متعلقہ کوئی چیز کا اشتہار ،جنسی کھلونوں کے اشتہارات کی بہتات ، کبھی اس قسم کی خریدوفروخت کا تصور بھی ممکن نہیں تھاجسے آن لائن شاپنگ سٹورزنے انتہائی آسان کر دیا ۔ چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ان ادویات کااستعمال موذی بیماریوں اورموت بانٹنے لگا۔جنسی سامان کی فراہمی کی آڑ میں نوسربازان صارفین کے اے ٹی ایم کارڈز کا ڈیٹا بھی چرا لیتے ہیں۔کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے محفوظ براﺅزر استعمال کریں، ویب سائٹ پر مالی لین دین کے تحفظ کے لیے کیے گئے سیکیوریٹی اقدامات پر عمل یقینی بنائیں۔ اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر، پن نمبر اور دیگر تفصیلات محفوظ طریقے سے درج کریں،سوشل میڈیا ماہرین کا صارفین کو انتباہ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ کچھ برس سے جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کی وجہ سے کئی نئی قباحتیں بھی معاشرے میں جنم لینے لگی ہیں۔اس وقت مختلف ناموں سے کام کرنے والی کمپنیاںفحش اشتہارات ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کو رقم ادا کرکے اپنے اشتہارات دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو اپنی مخصوص ویب سائٹ کی طرف لانا ہوتا ہے جہاں آن لائن چیزوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جو انتہائی گھٹیا حرکت کی جاتی ہے وہ خواتین کی فحش تصاویر کے ساتھ ان سے متعلقہ کوئی چیز کا اشتہار ہوتا ہے۔ آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو ٹائم لائن پر چند پوسٹوں کے بعد آپ کے سامنے ایسے اشتہارات ضرور آ جاتے ہیں۔ حتی کہ جنسی کھلونوں کے اشتہارات کی بہتات ہے۔ اس سب سے تنگ کچھ افریقی ملک نے باقاعدہ اس حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ کھلونے اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان شادی کرنے کو تیار نہیں ہے یا شائد قابل نہیںرہے۔ اسی طرح جنسی صحت سے متعلق ادویات بغیر کسی قانون ضابطے کے فروخت ہو رہی ہیں۔ کسی بھی ادارے کے چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ان ادویات کے استعمال سے کتنے انسان موذی بیماریوں کا شکار بننے کے ساتھ ساتھ بہت سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔جبکہ دوسری جانب ان سائٹس پر خریداری کرنے والے صارفین کے بنک کارڈز بھی ہیک ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیںجس حوالے سے ماہرین نے خریداروں کو مشورہ دیا ہے کہ جس ویب سائٹ پر خریداری کے لیے گئے ہیں وہاں پرائیویسی اور واپسی یا ری فنڈ کی پالیسی کو بہ غور پڑھیں۔ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے محفوظ براﺅزر استعمال کریں اور ویب سائٹ پر مالی لین دین کے تحفظ کے لیے کیے گئے سیکیوریٹی اقدامات پر عمل یقینی بنائیں۔ اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر، پن نمبر اور دیگر تفصیلات محفوظ طریقے سے درج کریں۔ پروڈکٹ وصول کرتے وقت اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلیں کہ آپ کو مطلوبہ چیز ہی درست حالت میں فراہم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر موجود اشیاءکے معیار اور قیمت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلیں۔ خریداری سے قبل دوسری ویب سائٹ اور فزیکل اسٹور پر بھی اپنی مطلوبہ چیز کی قیمت کا موازنہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔ پروڈکٹ کی دھندلی تصاویر، برانڈ کے نام کے ہجے میں فرق ہونے کی صورت میں اس شے کو نہ خریدیں۔اگر آپ کسی نئی ویب سائٹ سے پہلی بار خریداری کر رہے ہیں تو اس کمپنی کا ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر ا±ن کی مصنوعات اور خدمات کے حوالے سے کیے گئے تبصروں کو پڑھ لینا آپ کو کسی ممکنہ نقصان سے بچا سکتا ہے۔ادائیگی سے قبل فروخت کنندہ کی جانب سے فراہم کی گئی وارنٹی، گارنٹی اور قواعد و ضوابط کو لازمی پڑھیں۔مالی اور نجی معلومات کو چرانے والے سافٹ ویئر اور وائرس سے محتاط رہیں۔ اگر آپ کے درج کیے گئے ایڈریس کو کسی اور ویب سائٹ پر ری ڈائریکٹ کردیا جائے تو اس ویب لنک کو فوراً بند کردیں۔ ضرورت سے زیادہ نجی معلومات طلب کرنے والی ویب سائیٹ سے بچیں۔ مثال کے طور پر اگر خریداری کے لیے ادائیگی کرتے وقت آپ سے والدہ کا نام، پاس ورڈ، بینک اکاﺅنٹ کی معلومات مانگے تو وہاں سے خریداری نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اپنے پاس ورڈ کو مضبوط بنائیں اور خریداری کے بعد اسے تبدیل کردینا زیادہ بہتر ہے۔ صرف محفوظ انٹرنیٹ کنکشنز پر ہی معلومات دیں۔ کریڈٹ کارڈ یا بینک اکاﺅنٹ نمبر درج کرتے وقت ویب سائٹ کے توسیع کردہ توثیقی سرٹیفکیٹ کے فعال ہونے کو یقینی بنائیں۔ براﺅزر کے ایڈریس بار پر مطلوبہ ویب سائٹ ایڈریس سے قبل سبز رنگ میں دکھائی دینے والا https://کے الفاظ اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مطلوبہ ویب سائٹ کی توثیق کی جاچکی ہے۔دنیا بھر میں آن لائن خریداری کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس طرح صارف کا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اوردوکاندار سے بحث و تکرار سے بچنے کے لئے بھی لوگ اس طریقہ خریداری کو پسند کرتے ہیں۔جبکہ زندگی میں بہت سہولت کے طلبگار افراد کی بھی یہ اولین ترجیح ہے جو جسمانی طورپر کسی سٹور پر جانے سے کتراتے ہیںمگر اچنبھے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آن لائن سٹورز کی مقبولیت کے بعد بھی اب تک کوئی ادراہ موجود نہیں جو ان شاپنگ سٹورز کی رجسٹریشن کرتا ہواور اگر کسی خریدار کو کسی کمپنی کی پراڈکٹ کے بارے میں شکایت کرنی ہو تو وہاں سے کمپنی کی معلومات حاصل ہوسکیں۔پاکستان میں آپ ان شکایات کو لیکرعدالت میں تو جاسکتے ہیں مگر ظلم یہ ہے کہ صارف کے پاس اس کمپنی کا اتاپتہ ہی موجود نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف درخواست دائر کرے جبکہ اس حوالے سے ملکی قوانین کا بھی فقدان ہے۔آن لائن فروخت کئے جانے والے سامان کے حوالے سےکاروائی کرنے والے متعلقہ ادارے یا تو اس حوالے سے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور یا پھر محدود پیمانے پر کاروائی کی جاتی ہے جس کے لئے وسائل کا رونارویا جاتا ہے۔ابتک کی واحد کاروائی میں گزشتہ سال 25جنوری کوایف آئی اے کارپوریٹ سرکل کی ٹیم نے جنسی ادویات اور سامان کا مکروہ دھندہ کرنے والے تین ملزمان کو گرفتار کیا۔ملزموں سے جنسی ادویات اور دیگر سامان کو بھی قبضے میں لیا گیا۔ ملزمان دو ویب سائٹس کے ذریعے شیطانی کام کر رہے تھے اورگزشتہ دس سال سے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر رہے تھے۔جس کے بعد ابتک اس بارے میں کوئی نئی کاروائی نہیں کی گئی۔اس حوالے سے ایف آئی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک ہمیں شکایات موصول نہیں ہوتی ہے ہم کاروائی نہیں کرتے ہیں
