تازہ تر ین

” سپریم کورٹ کیطرف سے واضح کہا گیا کہ امپائر صرف عدالت عظمیٰ شیخ الاسلام کے انقلابی خطابات نے سراسیمگی پھیلا رکھی تھی، الٹی میٹم سے نظام حکومت اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی“ عہد ساز لکھاری ضیا شاہد اور دفاعی تجزیہ کار مکرم خان کے مقبول کالم ” جنرل راحیل شریف کی یادیں “ کی 18 ویں قسط

سپریم کورٹ کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا کہ ”امپائر“ صرف عدالتِ عظمیٰ ہے۔ شیخ الاسلام کے انقلابی خطابات نے سراسیمگی پھیلا رکھی تھی ان کی للکار نے دارالحکومت ہی نہیں پاکستان کے طول و عرض میں ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ ان کے الٹی میٹم سے نظام حکومت اور جمہوریت دونوں کی بساط لپیٹ دینے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔”ڈیڈ لائن“ دی گئی‘ فیصلہ کن غسل ہوئے‘ کفن پہنے گئے‘ قبریں کھودی گئیں حتیٰ کہ انقلاب لائے بغیر جانے والوں کو شہید کیے جانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
شاہراہ دستور کی پامالی سے بات بڑھ کر عدالت عظمیٰ کی بیرونی دیوار کے جنگلوں تک جا پہنچی۔ عدالت عظمیٰ کی دیوار کے عین سائے میں خیمہ زن مردوزن اور ایوان ہائے اقتدار کے گردوپیش میں دندناتے مقلدین سرکاری اداروں تک پہنچنے لگے۔ اسلامی انقلاب کے داعی علامہ طاہرالقادری اور انقلابی مارچ کے روح رواں عمران خان اور ان کے ان گنت انصافی کسی غیرمرئی امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں شدت جذبات سے ملغوب ہو رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پرتشدد احتجاج آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے ذہن کی اختراع تھی‘ جنہیں ریٹائر ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے تھے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کسی طور اس معاملے کی پشت پر تھے جس کی آزاد ذرائع تصدیق نہیں کرتے۔ امپائر کی انگلی اٹھنے یا نہ اٹھنے کی کیفیت طاری تھی۔ حکومت سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور اس کے مضر اثرات سے خائف پرتشدد احتجاج کا سیاسی طور پر سامنا کر رہی تھی۔
ریاستی طاقت کا استعمال بعض اوقات ناگزیر ہوتا ہے مگر حکومت کی دفاعی حکمت عملی احتجاجی عناصر میں نیا جوش و خروش پیدا کر رہی تھی۔ اہم سرکاری عمارتوں پر ہلہ بولنے اور محاذ آرائی کے واقعات بڑھ رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں انقلاب میں عوام نہیں عوامی تحریک کے کارکن نکلے۔ 17 جون 2014ءکے دن گولیاں بھی کارکنوں نے کھائیں اور لاشیں بھی کارکنوں کی ہی گریں۔ سوا تین گھنٹے کی جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں انہوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا جنرل راحیل شریف نے انہیں منہاج القرآن ماڈل لاہور سانحہ کا انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ جو وفا نہیں ہوا۔
جنرل راحیل شریف سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقاتیں ضرور ہوئیں۔ عمران خان کا دھرنا بے نتیجہ کیوں رہا۔ اور ڈاکٹر طاہر القادری دھرنا اُٹھنے سے قبل ہی انقلاب کی تحریک عین بیچ چھوڑ کر واپس کینیڈا کیوں چلے گئے۔ موضوع کالم نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے بطور آرمی چیف ”بیچ بچاﺅ“ کردار سے مگر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل راحیل شریف کے مفاہمانہ کردار سے آئینی اور سیاسی خلفشار کا خطرہ تو ٹل گیا۔ لیکن ”سکرپٹ“ اور ”ڈائریکشن“ کا تذکرہ ذرائع ابلاغ ہی نہیں عوامی مقامات پر بھی تادیر ہوتا رہا۔ عوامی رائے میں سکرپٹ قومی سلامتی کے تحفظ کے ضامن ادارے کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ اور اس کے ہدایت کار لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام سمجھے جاتے تھے۔ بعض روایات کے مطابق آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز اور پرنسپل سٹاف آفیسرز کانفرنس میں دارالحکومت میں احتجاجی کیفیت زیر بحث آئی۔ قوم کی نظریں جنرل راحیل شریف کی طرف اُٹھی ہوئی تھیں۔ شنید ہے کہ اس دوران منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں راولپنڈی کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری رسہ کشی میں فوجج کے فریق بننے کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ بعض اطلاعات کے مطابق اُن کا نقطہ¿ نظر یہ تھا کہ فوج کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ جنرل راحیل شریف سمیت فوج کی سینئر قیادت کا بھی یہی مطمح نظر تھا۔ ایک آدھ معتدل ٹی وی چینل کو چھوڑ کر باقی الیکٹرانک میڈیا جلتی پر آگ کا کام کر رہا تھا۔ عوامی توقعات تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔
اُس وقت مضمون کے شریک مصنف ضیا شاہد نے اپنے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں بلا تامل تجزیہ دیتے ہوئے بارہا کہا عمران خان اور طاہر القادری اپنی ہٹ دھرمی، ضد اور باغیانہ روش سے پاکستان کی سالمیت کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر چکے ہیں۔ شاید اُنہیں معلوم نہیں کہ چنگاریوں کو ہوا دینے سے وہ شعلوں میں بدل جاتی ہیں جن پر قابو پانا بے حد محال ہوتا ہے۔ پاکستان بحرحال خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خطرات بلاشبہ موجود تھے۔
حکمرانوں کا نامہ¿ اعمال داغدار ہونے کے باعث عوام کی اکثریت اُمیدوں کا چراغ جنرل راحیل شریف سے وابستہ توقعات سے روشن کئے ہوئے تھی۔ عوام کا خیال تھا کہ ماضی کے تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں جنرل راحیل شریف اس اعتبار سے منفرد ہیں۔ کہ ان کے دل میں خوفِ خدا جا گزیں اور پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے زیادہ اُن کا چرچا سوشل میڈیا پر سنائی دیتا جس کے صارفین کی تعداد پاکستان میں بلامبالغہ کروڑوں کی حد کو چھو رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے بقراط عوامی توقعات کے سیلاب کو کچھ اس طور پیش کر رہے تھے کہ حکومت کا جانا ٹھہر گیا۔ حیران کن حد تک آئی ایس پی آر نے بعض شہروں میں آویزاں کئے جانے والے ترغیبانہ بینرز کی تردید نہیں کی اور نہ ہی اظہار لا تعلقی کیا۔ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا جادو عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگا۔ جن کا خیال تھا کہ جنرل راحیل شریف معاشرے کی خرابیوں سے لے کر قومی سطح کی بدعنوانیوں پر جادو کی چھڑی سے قابو پا لیں گے۔ مثالی جمہوریت کے متلاشی اور اسلامی انقلاب کے داعی حکمرانوں سے مایوس تھے عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں بے حال اور اپنے حالات میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔
جنرل راحیل شریف اور فوج سے عوامی توقعات کی ماضی میں کم از کم ایسی مثال نہیں ملتی۔
(جاری ہے)


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain