لیکن یہ آراءکثرت سے سنائی دے رہی ہیں کہ ٹوٹی کمر کے ساتھ دہشت گرد اب بھی فعال ہیں‘ خودکش حملے رک سکے نہ بم دھماکے۔ فوجی دستوں پر گاہے بگاہے دہشتگردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے سات سو اٹھارہ کیسز میں اسی کروڑ سے زائد رقم برآمد ہونا نیشنل ایکشن پلان کی توہین ہے۔
جنرل راحیل شریف باالفاظ دیگر فوج کا دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنے کا عزم صمیم صرف تاریخ میں زندہ رہے گا۔
قومی ایکشن پلان کے تحت عسکری تنظیموں اور غیرقانونی مسلح گروہوں کو ملک میں دندنانے کی اجازت نہیں دینی تھی اس کیلئے ”نیکٹا“ یعنی انسداد دہشت گردی ادارے کو مزید مضبوط کیا جانا تھا۔ معلوم نہیں وسائل کی عدم دستیابی وجہ تاخیر ہوئی یا فنڈز کی فراہمی آڑے آئی۔
”نیکٹا“ عوامی توقعات کے مطابق حرکت میں نہیں آ سکا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور قواعد و ضوابط طے کرنے کی راہ میں متعدد رکاوٹیں حائل ہوئیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومتی حلیف ہونے کے باوجود کہتے سنے گئے کہ انہوں نے اپنے مدارس کے منتظمین سے کہہ دیا ہے کہ جب کوئی حکومتی اہلکار یا خفیہ ادارے کا کارندہ بازپرس کیلئے آئے تو قہقہے لگائے جائیں اور اس کا ”ٹھٹھا“ اڑایا جائے۔ جنرل راحیل شریف کی روانگی کے ساتھ ہی انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کو ناقابل عمل اور غیرمنطقی قرار دے دیا۔ اگر وہ جنرل راحیل شریف کے دور کمان میں بھی اپنے ان خیالات کا اظہار کرتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ ہونا وہی تھا جو الطاف حسین‘ محمود خان اچکزئی‘ اسفندیار ولی اور خواجہ آصف وغیرہ کے فرمودات کا ہوا ہے۔ انسداد دہشتگردی فورس اور اس کے قیام اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کیلئے نیم عسکری فورسز اور پولیس فورس کی تربیت فوجی نگرانی میں شروع ہوئی اور اس کا دائرہ کار مزید وسیع کیا گیا‘ لیکن مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے اقدامات یقینی نہیں بنائے جا سکے۔ اگرچہ دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث ملزم گرفتار ہوئے‘ لیکن ان کے مقدمات ہنوز تفتیشی عمل پر عدالتی کارروائیوں میں لٹکے ہوئے ہیں۔ انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے یقینی اقدامات ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں جاری ضرور ہے۔ کراچی میں جاری دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائے جانے کا عزم نشیب و فراز کا شکار رہا۔ لسانی تنظیم کے اسلحہ کے ذخائر منظرعام پر آنے پر سرکاری تحویل میں لیے جانے کے باوجود ذمہ داران کا تعین نہیں ہو سکا۔
بلوچستان میں صوبائی حکومت کو سیاسی مفاہمت اور جلاوطن قوم پرستوں سے معاملات طے کرنے کیلئے مکمل اختیارات دیئے جانے کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہو سکی۔ بری فوج اور فرنٹیئر کور بلوچستان کے آپریشن کے باوجود فرقہ واریت اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے عناصر بلوچستان میں موجود ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے مطابق افغان مہاجرین کے رجسٹریشن‘ کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات اور مذہب کی بنیاد پر استحصال کی بیخ کنی شامل تھی جو کسی طور فوج کی ذمہ داری نہیں تھی‘ لیکن عوام و خواص نے یہ توقعات بھی جنرل شریف سے وابستہ کر لیں۔
مختلف وفاقی وزراءکی سربراہی میں ”ورکنگ گروپس“ تشکیل دئیے گئے تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ کی زیر نگرانی مسلح گروہوں کے خاتمہ انسداد دہشتگردی فورس کی تشکیل شدت پسندوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال وغیرہ کا کھوج لگانا بھی فوج ہی کی ذمہ داری سمجھا گیا۔ صوبہ پنجاب کے بعض علاقوں میں جاری فرقہ واریت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے تدارک کے لئے پنجاب رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔
وفاقی وزیر اطلاعات کی سربراہی میں ذرائع ابلاغ میں شدت پسندی کی ترغیب اور وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں شدت پسندوں کی مالی امداد کی بندش کے علاوہ گورنر خیبر پختونخوا کی سربراہی میں فاٹا میں ترقیاتی کام اور نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کی بحالی شامل تھی۔ جنرل راحیل شریف کے دورِ کمان میں فوج نے فاٹا میں ترقیاتی کام سرانجام دئیے اور نقل مکانی کرنے والو ںکی باحفاظت واپسی یقینی بنائی۔
دیگر امور جنرل راحیل شریف کی دسترس سے باہر رہے۔ جو شاید ان کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں تھے۔
سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور بسا اوقات پرنٹ میڈیا، جنرل راحیل شریف سے وابستہ توقعات کو ہوا دیتا رہا۔ لیکن سرِ مو اثر نہیں ہوا۔ قومی ایکشن پلان کے تحت جن بے شمار گرفتاریوں کا تذکرہ اور مقدمات کے اندراج کا ذکر اوپر ہو چکا ہے وہ تو گھڑے کی مچھلیاں تھیں۔ کسی ایک بھی بڑے مگر مچھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔ یہ غلط فہمی یا خوش فہمی چہار سو زیر بحث رہی کہ قومی ایکشن پلان بنیادی طور پر فوج کے دائرہ کار میں آتا ہے اس کے لئے جنرل راحیل شریف کو مختلف وزارتوں صوبائی حکومتوں اور وفاقی و صوبائی محکموں کا تعاون درکار تھا۔ جو شاید اپنی اصل روح کے مطابق انجام نہیں دیا جا سکا۔ اس ایک برس میںجنرل راحیل شریف ملک کی مقبول ترین شخصیات کے طور پر ابھرے۔ قوم نے ان سے بعض ایسی توقعات بھی وابستہ کر لیں جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھیں۔
جنرل راحیل شریف کے دورئہ روس کے دوران جنرل عاصم سلیم باجوہ کے روسی جریدے ”سیوٹنگ“ کو دئیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ سیاسی مشکلات کی وجہ سے دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے بنائے جانے والے ا یکشن پلان پر مکمل طریقے سے عملدرآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔
قومی لائحہ عمل کے بعض حصوں پر عملدرآمد ضرور ہوا لیکن دہشتگردوں کی مالی وسائل کی فراہمی روکنے میں مو¿ثر ثابت نہیں ہوا۔
(جاری ہے)
جنرل راحیل شریف مصلحتوں کا شکار ہو گئے یا مجبوریاں آڑے آئیں، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی، خفیہ معلومات کی بناءپر دہشتگردوں کے گرد قبائلی علاقوں میں شکنجہ کسا گیا اور عملی طور پر صفایا بھی کیا جاتا رہا۔ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی دیگر شقیں التواءکا شکار ہیں۔
فوج نے طالبان سمیت دیگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ جس سے دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ عوام جنرل راحیل شریف کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔
حکومت سیاسی مصلحتوں کا شکار رہی اور میثاق جمہوریت کے فریقین کی ہرزہ سرائیاں جاری رہیں۔ ذرائع ابلاغ حسب سابق عوامی توقعات کو آگے بڑھاتے رہے۔
مختلف چینلز کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں کہا جانے لگا کہ بعض سیاسی عناصر کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
فوجی قیادت کی خاموشی کو درگزر اور برداشت سمجھنا سیاستدانوں کی فاش غلطی ہوگی۔ زیر نظر مضمون کے شریک مصنف ضیاشاہد نے مختلف مواقع پر اپنے تجزیے میں کہا ”پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کسی قسم کی ڈرامائی تبدیلی کی توقع ہے نہ امکانات۔ میثاق جمہوریت کے فریقین کی بقاءاسی میں ہے کہ وہ عوامی سوچ کا نوشتہ دیوار ردعمل بروقت پڑھ لیں۔ ورنہ آئندہ انتخابات میں انہیں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ وغیرہ نہیں اقتصادی دہشتگردی کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا۔
دیگر ٹی وی چینلز نے عوام کو جنرل راحیل شریف کے کسی محیرالعقول خواب دکھانا شروع کر دئیے۔
فوج کو مشرقی سرحد پر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں نے الجھا رکھا تھا۔ اور آپریشن ضرب عضب بھی شروع ہو گیا۔ گزشتہ ایک تہائی سے خود کش حملوں، بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور بارود سے بھری گاڑیاں پھٹنے سمیت ملک بھر میں بدترین دہشتگردی کا بازار گرم تھا۔
ہمارے کھیل کے میدان اور سیاحتی مقامات ویران ہو گئے تھے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت دہشتگردوں کی آماجگاہ کے طور پر ہونے لگی، دہشتگردی کےخلاف عالمی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے اور دنیا کے امن کی خاطر قربانیاں دینے کا صلہ یوں ملا کہ ہم خود تاریخ کی بدترین دہشتگردی کا شکار ہو رہے تھے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے دنیا بھر سے جمع ہوئے دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن گئے تھے۔
غیر ملکی دہشتگردوں کی پاکستان آمد کا سبب بھی امریکہ کے مفادات کی اندھی تکمیل تھی۔
افواج پاکستان کا طالبان اور غیرملکی دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب پوری قوم کے لئے ایک بڑا امتحان اور جنرل راحیل شریف کے لئے اعصاب شکن فیصلہ تھا۔
2006ءمیں حکومت اور ”مجاہدین“ کی شوریٰ کے درمیان امن کا ا یک معاہدہ استوار ہوا تھا جس کی رو سے علاقہ میں موجود غیرملکی جنگجوﺅں کو خاموش رہنا تھا یا پھر علاقہ چھوڑنا تھا۔
عسکری قیادت کا اس طرح کے معاملات میں عمل دخل تھا۔
اس معاہدے سے متعدد بار انحراف اور مسلسل روگردانی ہوتی رہی۔ سرزمین پاکستان کو دہشتگردی کے لئے استعمال کرنا اور پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا حصہ بننا ناقابل برداشت تھا۔
بالآخر فوج کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ کراچی ایئرپورٹ کا سانحہ رونما ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ افواج پاکستان کی طرف سے آپریشن کا آغاز ہو گیا۔ عسکری قیادت نے شمالی وزیرستان کے عمائدین کو متعدد بار باور کرایا کہ وہ علاقے کو ان غیر ملکی و ملکی شرپسندوں سے پاک کر لیں ورنہ آپریشن ناگزیر ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی متصادم نقطہ نظر کے باوجود دیگر سیاسی قوتوں کی طرح آپریشن ضرب عضب کی غیر مشروط حمایت کر رہی تھیں۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز ہی میں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور پیش آیا جس سے آپریشن میں تیزی آنے لگی۔
شمالی وزیرستان میں مرکوز طالبان رہنماﺅں نے افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان کی طرف رخ کیا جو طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں سمجھی جاتی ہیں۔
شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کا پلان انتہائی مربوط اور مو¿ثر تھا جس کا سہرا جنرل راحیل کے سر ہے۔ پہلے مرحلے میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں کے ذریعہ نشانہ بنانا تھا۔
اگلے مرحلے میں زمینی دستے کارروائی کر کے علاقہ کا کنٹرول سنبھالتے۔ آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردی کے خلاف برسرِ پیکار ہر سپاہی کی سوچ وطن کو دہشتگردی سے پاک اور قوم کے لئے استحکام پیدا کرنا تھا۔ جس کے لئے اَن گنت جانی قربانیاں پیش کی گئیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ بھی کر لیا تھا کہ اس آپریشن کی کامیابی کے لئے 20ارب روپے کی خصوصی گرانٹ مہیا کی جائے گی۔
آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان میں حکومتی گرفت ایک بار پھر مضبوط ہو گئی۔ اہلیان پاکستان کا دہشتگردی کے حوالے سے جنرل راحیل شریف کی کمان پر اعتماد بڑھنے لگا۔