تازہ تر ین

معافی مانگیں ورنہ ,اپوزیشن کی بڑی شخصیت نے اہم حکومتی وزیر کو مجبور کردیا

اسلام آباد (آئی این پی‘ مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی میں مسلسل دوسرے روز بھی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تحریک التواءمسترد ہونے پر ہنگامہ آرائی اور شور شرابا، شیم شیم اور نو نو کے نعرے، پی ٹی آئی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کی جانب سے سپیکر کو ایاز صادق کا نام لے کر مخاطب کرنے پر حکومتی ارکان کی جانب سے شدید احتجاج اور نو نو کے نعرے، جواباً پی ٹی آئی کے ارکان نے بھی آوازیں کسے، وزیر مملکت عابد شیر علی اور شیخ روحیل اصغر کی شاہ محمود سے توتکار ، خواجہ آصف، سعد رفیق اور دیگر وزراءنے عابد شیر علی کو روک کر ماحول کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا ، سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ یہ میرا اور شاہ محمود کا معاملہ ہے ۔ حکومتی ارکان مداخلت نہ کریں، شاہ محمود کی تقریر کے دوران بار بار ماحول ناخوشگوار ہوتا رہا، شاہ محمود نے نکتہ اعتراض پر خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ وزیر اعظم نواز شریف ایوان میںآکر ایوان اور عدالت کے بیان میں تضاد بیانی بارے وضاحت کریں اور سعد رفیق پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو غنڈہ کہنے پر معافی مانگیں ورنہ ان کو بولنے نہیں دیں گے۔ جمعرات کو تلاوت سے اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ کافی وقت گزر گیا کل بھی شاہ محمود قریشی بان کرنا چاہتے تھے ناخوشگوار حالات کی وجہ سے نہیں کر سکے۔ مناسب ہو گا آج سارے پارلیمانی لیڈر بات کریں ۔ سعد رفیق نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کا احترام کرتے ہیں۔ اپوزیشن کو سننے کے لئے تیار ہیں۔ باری باری بات ہونی چاہیے کل والے طرز عمل نہیں دہرایا جانا چاہیے اگر پی ٹی آئی کے لیڈر پہلے بتا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ شاہ محمود نے کہا کہ کل اگر قائد حزب اختلاف کے خطاب کے بعد مجھے دس منٹ موقع دیا جاتا تو ماحول ناخوشگوار نہ ہوتا اگر یہ بات مان لی جاتی تو ماحول خوشگوار رہتا میں خواتین سے واقف ہوں اور چیئر کے تقدس سے واقف ہوں۔ سوال ہے کہ آپ کو ہمیشہ سپیکر کہہ کر مخاطب کرتا رہا یہ نوبت کیوں آئی کہ آپ کو ایاز صادق کہنا پڑا ۔ سپیکر سے توقع کرتا ہوں کہ وہ ہاﺅس کا کسٹوڈین ہو گا۔ میری آواز اکیلی نہیں 80 لاکھ ووٹرز کا ترجمان ہوں ۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت کا ترجمان ہوں۔ اس آواز کو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ سرکاری کی جانب سے رواداری کا اظہار نہیںکیا گیا۔ چیئر جو میرے حقوق کی مخافظ ہے لیکن سپیکر نے بھی مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا۔ سپیکر بھی دباﺅ کا شکار اور جماعتی وابستگی کا اسیر ہو گیا اس لئے میں مخمصے کا شکار ہوں کہ آپ کو سپیکر کہوں یا ایاز صادق، اگر آپ ہاﺅس کے کسٹوڈین بنیں گے تو سپیکر کہوں گا ورنہ میں اسے ن لیگ کا جیالا کہوں گا ۔ اگر جیالا بننا ہے تو سپیکر کی کرسی چھوڑ کر ایوان میں آجائیں، میں حادثاتی طور پر ایوان میں نہیں آیا نہ حادثاتی طور پر بٹیرا پاﺅں تلے آنے پر شکاری بنا ہوں ۔ اس ایوان میں بہت سارے شکاری ہیں جو پاﺅں تلے بٹیرا آنے پر شکاری بن بیٹھے ۔ اس موقع پر ن لیگ کے ارکان نے نو نو کے آوازیں لگائیں تو شاہ محمود نے کہا کہ مجھے کوئی جلدی نہیں آپ بے شک بلی کی آوازیں لگاتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں مزاجاً گستاخ نہیں ہوں ادب کرنا سکھایا گیا ہے۔ میرا دوسرا سوال وزیر ریلوے سے ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے ارکان کو غنڈا قرار دیا۔ ایوان فیصلہ کرے کہ یہ غنڈے ہیں۔ اس پر (ن) لیگی ارکان نے ہاں ہاں کے نعرے لگائے۔ جس پر پھر دونوں طرف سے شور مچایا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعد رفیق کو غنڈا کہنے پر معافی مانگنی ہوگی ورنہ ریلوے حادثوں کی وجہ سے پارلیمانی حادثہ ہو جائے گا۔ اگر خواجہ سعد رفیق معافی نہیں مانگے گا تو ہم اسے بات نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میری جماعت نے تحریک استحقاق پیش کی جو ہمارا حق تھا۔ و زیر اعظم کے خطاب اور سپریم کورٹ کے بیان میں تضاد تھا۔ آپ نے تحریک استحقاق مسترد کر دی۔ رولنگ دینا سپیکر کا اختیار ہے لیکن مجھے سنے بغیر کس طرح رولنگ دی جا سکتی ہے‘ اندھیرے میں ۔ سپیکر نے جواب دیا کہ وہاں لائٹس جل رہی تھیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپیکر سے توقع تھی کہ محرکین کو سن کر رولنگ دیتے۔ میرا موقف سنا جانا چاہیے تھا اگر ایوان میں سپیکر ہوتا تو میرا موقف سنا جاتا۔ وہاں ایاز صادق کے لئے میرا موقف سننا ضروری نہیں تھا۔ میری آواز دبانا پارلیمانی روایات کے برعکس ہے۔ مانتا ہوں کہ پانامہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف نے کل ٹی وی پر بیان دیا کہ پانامہ کیس پر بات نہیں ہو سکتی لیکن وزیر اعظم کی تضاد بیانی پر تحریک استحقاق آ سکتی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کا ایوان میں بیان د رست ہے یا سپریم کورٹ میں ان کا بیان درست ہے۔ اگر وضاحت آ جائے تو ہماری تشفی ہو جائے گی۔ کل جو کچھ ہوا اس پر خوشی نہیں دل آزاری ہوئی میں نے مشرف کے ریفرنڈم کے خلاف ملتان کے ناظم کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر رولز کو فالو نہیں کرنا تو قواعد کی کتابیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائیں۔ ہم نے آئین کی کتاب نہیں رولز کی کتاب اچھالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم غنڈے ہیں تو ہمیں ایوان سے باہر بھیج کر گرفتار کرا دیا جائے۔ غنڈوں کا یوان میں کیا کام ہے۔ سعد رفیق نے اگر معافی نہ مانگی تو بات نہیںکر سکیں گے۔ غنڈہ کہنے کا حق سعد رفیق کو نہیں دے سکتا۔ آئیے معاملات کو آگے کیلئے سدھارتے ہیں۔ نواز شریف صاحب ایوان میں آ کر وضاحت کر دیں کہ لندن فلیٹس کا منی ٹریل کیا تھا۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا ایشو کرپشن ہے ۔ کرپشن کے انسداد کے لئے جماعت اسلامی نے 3 ترامیمی بل لائے تھے لیکن ان بلوں کے بارے سے ابھی تک پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ پانامہ پیپرز میں ملک کے لوگوں کے نام آئے مگر کسی سے تحقیقات شروع نہیںکی گئیں ۔ وزیر اعظم نے ایوان میں اور بیان دیا اور سپریم کورٹ میں الگ بیان دیا۔ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے گزشتہ روز بولے گئے اپنے الفاظ ”غنڈہ گردی“ پر معذرت کر لی۔ کہتے ہیں کہ حکومت بھی چاہتی ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ جلد ہو۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کی تقریر کی مکمل ذمہ داری لینے کا اعلان بھی کیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain