لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجربوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر معروف قانون دان علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس آرٹیکل 1843 کے تحت لڑا جا رہا تھا۔ کیس شروع ہوا تو عدالت کا خیال تھا کہ کمیشن بنا دیا جائے لیکن دستاویزات دیکھ کر لگا کہ وہ خود ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ میں کیس چلا تو دونوں فریقوں کی جانب سے کمزور دلائل سامنے آئے یہ بھی فیصلہ کیا کہ کمیشن بنا دیا جائے۔ تحریک انصاف نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے پاس یہی آپشن باقی رہ گیا کہ کیس نئے سرے سے سنا جائے چونکہ چیف جسٹس نے ریٹائر ہونا تھا اور نیا بنچ بنتا تھا۔ کیس کو ازسر نو سننے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری پیش کردہ دستاویزات بھی دوبارہ تیار ہوں گی۔ دستاویزات وہی رہیں گی صرف بحث نئے سرے سے شروع ہو گی۔ علی ظفر نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کی جمہوریت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کا جمہوری شعور ہمارے یہاں سے بہت آگے ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما تو بیانات بدلنے کے ماہر ہیں وہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ جمہوری ممالک میں تو لوگ الزامات پر مستعفی ہونے کے بجائے خود کشیاں کر لیتے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ الٹ ہے یہاں کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اس لئے معاملات آگے نہیں بڑھ پاتے۔ عام قانون تو یہ ہے کہ اگر کسی پر الزام لگایا جائے تو الزام لگانے والے کو ثابت کرنا پڑے گا لیکن کرپشن اور وائٹ کالر کرائم میں جس پر الزام ہو بار ثبوت اسی پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اسی لئے بار ثبوت شریف فیملی کے سر رکھا ہے۔ معروف قانون دان نے کہا کہ پانامہ کیس جب سامنے آیا تو وکلا نے کمیٹی بنائی کہ اس کرپشن کو پکڑا جا سکے۔ ہم نے قانون دیکھا تو انکوائری ایکٹ سامنے آیا لیکن اس کے تحت بننے والا کمیشن بہت کمزور ہوتا۔ پھر ہم نے ٹی او آرز بنائے اور پریس کانفرنس کی جس میں بتایا کہ پاکستان کے دنیا بھر کے ممالک سے معاہدے میں ان کے تحت ایک کمیشن بنایا جائے تو وہ باآسانی باہر کے ممالک جا کر ثبوت اکٹھے کر سکتا ہے۔ اب وکلا کا خیال تھا کہ یہ ذمہ داری اصل میں پارلیمان کی ہے۔ ارکان اسمبلی پارٹی مفادات سے آگے بڑھ کر ملکی مفاد کی خاطر قانون سازی کریں اور ٹی او آرز کو قانون سازی کے ذریعے ااگے لے کر جائیں۔ اس وقت یہیں کہا گیا کہ آپ کیوں سپریم کورٹ نہیں جاتے۔ میرا خیال تھا کہ ہم کورٹ چلے بھی گئے تو وہ کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ اسے بھی کمیشن بنانے کیلئے قانون چاہئے ہو گا یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور کیس ختم ہو جائے گا اور اگر واقعی کرپشن ہوتی ہے تو اس کو کلین چٹ مل جائے گی۔ میں سپریم کورٹ میں جانے کے خلاف تھا۔ پانامہ کیس کو چلانے کا درست طریقہ عوامی دباﺅ تھا۔ تحریک انصاف نے درست طریق اختیار کیا۔ پیپلزپارٹی اگر ان کا ساتھ دیتی تو نتیجہ مختلف سامنے آتا۔ ہم نے ہر عوامی ادارے کو ٹی او آرز بھیجے اور استدعا کی کہ پاکستان کی خاطر یہ کام کریں ہم وکلا اس وقت بھی تیار تھے اب بھی تیار ہیں اگر عوام اٹھ کھڑی ہو اور دباﺅ ڈالے کہ قانون سازی کی جائے۔ قانون دانوں کا کام راستہ دکھانا ہے۔ اس وقت کرپشن سے نمٹنے کیلئے قانون سازی ضروری ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ لے لیا ہے تو اب تین طرح کے فیصلے ممکن ہیں ایک یہ کہ پٹیشن ہی ختم کر دے کہ ہم ٹرائل کورٹ نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کا موقف سچ مان لے کہ کرپشن ہوتی ہے جس پر ایکشن لیں گے تیسرا یہ کہ کورٹ کہے تو کمیشن بنایا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خصوصی کمیشن ہو گا جس کا سربراہ جج ہو سکتا ہے ایک وکیل بھی جو ان امور کا ماہر ہو رکن ہو سکتا ہے۔ یہ کمیشن تمام ممالک سعودی عرب، قطر، لندن، پانامہ جائے اور تحقیقات کر کے ثبوت لا کر کورٹ کو پیش کرے۔ غیر معمولی صورتحال کے تحت کورٹ آرٹیکل 184 کے تحت خصوصی دائدہ اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ وہ قانون جس کے تحت حکومت کمیشن کی رپورٹ دبا کر رکھ سکت ہے غلط ہے۔ ہم نے پانامہ کیس پر جو ٹی او اارز بنائے اس میں لکھا کہ کمیشن کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ رپورٹ کو شائع کرے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیس کی کمیشن رپورٹ بھی حکومت کے پاس ہے، میں وہ کیس لڑ رہا ہوں اور ہائیکورٹ میں کیس فائل رکھا ہے کہ معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کے تحت رپورٹ تک رسائی دی جائے، فل بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے بطور پاکستانی میرا حق ہے کہ معلومات جان سکوں۔ سانحہ کوئلہ پر کمیشن رپورٹ بڑی اچھی ہے لیکن میرے خیال میں اس میں کوئی ایسی نئی ات نہیں جو ہمارے علم میں نہیں ہے۔ رپورٹ میں غلطی یہ کی گئی کہ جب کسی پر الزام لگایا جائے تو اس کا جواب لینا چاہئے۔ اگر رپورٹ میں کسی پر الزام لگایا گیا ہے تو اسے قانونی طور پر دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ سپریم کورٹ میں جا کر کہہ سکتے ہیں کہ میرا موف نہیں سنا گیا اس لئے میرا جواب سنا جائے یہ ان کا قانونی حق ہے۔