لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میری عمر کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹوں سے لڑتے گزرا ہے لیکن 27 دسمبر کا دن جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے دکھ محسوس کرتا ہوں۔ بینظیر بھٹو سے چھ سات بار ملاقات ہوئی آخری ملاقات کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں اپنے بیٹے مرحوم عدنان شاہد کے ساتھ دبئی میں تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہمیں چائے پر بلایا۔ بینظیر بھٹو کو اس ملاقات میں ماں کے روپ میں دیکھا، انہوں نے عدنان شاہد کو بہت پیار کیا اور کہنے لگیں کہ تمہیں دیکھ کر مجھے بلاول یاد آ رہا ہے وہ بلاول کو بہت زیادہ یاد کرتیں اور اس کی کمی کو محسوس کرتی تھیں۔ واپسی پر محترمہ نے اپنی لکھی کتاب پر عدنان کیلئے پیار کے ساتھ لکھ کر سائن کر کے دی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ بینظیر بھٹو جب دبئی سے کراچی آئیں اور ریلی کے ٹرک پر سوار ہوئیں تو بلٹ پروف حصہ میں بیٹھنے کے بجائے باہر کھڑی ہو کر عوام کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتی رہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے آصف زرداری سے 3 بار فون پر رابطہ کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ میرا خدشہ ٹھیک ثابت ہوا اور محترمہ بینظیر پر حملہ کیا گیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہیں۔ بعد میں آصف زرداری نے مجھے فون کیا تو میں نے انہیں کہا کہ آپ کیوں ساتھ نہیں آئے تو جواب دیا کہ محترمہ نے مجھے منع کیا ہے کہ الیکشن سے پہلے آپ پاکستان نہیں آ سکتے۔ بینظیر بھٹو کی لیاقت باغ میں آخری تقریر بھولی نہیں جا سکتی اس خطاب میں جو جوش و جذبہ تھا وہ کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ گڑھی خدا بخش میں جلسہ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ بڑے اہم لوگ پی پی میں شامل ہو رہے ہیں گرینڈ الائنس بن رہا ہے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ پنجاب سندھ یا کے پی کے کی کوئی جماعت وہاں نظر نہ آئی۔ اے این پی بھی مکمل خاموش رہی۔ مولانا فضل الرحمن تو سارا بوجھ ن لیگ کے پلڑے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ گڑھی خدا بخش کی تقریب توقع سے بہت کم رہی، بہت کم لوگوں نے تقریب میں شرکت کی۔ آصف زرداری اگر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں اور پانامہ معاملہ پر اتحاد بھی بنا لیں تب بھی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کبھی بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عمران خان کا بنیادی فلسفہ ہی زیرو ہو جائے گا۔ عمران خان نے رائے ونڈ میں جو جلسہ کر دکھایا دکھایا پیپلزپارٹی اس کا پانچواں حصہ بھی نہیں کر سکتی۔ بلاول بھٹو بارے میڈیا پر ہر دوسرا شخص کہتا نظر آتا ہے کہ ابھی تو ان کی عمر ہی وزیراعظم بننے کی نہیں ہوئی تو یہی کہوں گا کہ آئین میں ترمیم کر کے وزیراعظم کیلئے عمر کی حد کم بھی تو کی جا سکتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسی ترامیم تو معمول ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ نوازشریف سرنڈر کر کے یہ بات مان لیں کہ اس بار باری بلاول بھٹو کو دی جائے۔ پیپلزپارٹی نے آج الیکشن 2018ءتک ن لیگ کو غیر مشروط حمایت فراہم کر دی ہے۔ عمران خان اب سڑکوں پر نکل بھی آئیں تو تبدیلی نہیں لا سکیں گے اور تحریک ان کی الیکشن کمپئن میں شمار ہو گی۔ الیکشن 2018ءمیں ہی ہوں گے۔ محتلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جاوید ہاشمی نے گزشتہ روز خواجہ آصف کی صدارت میں ایک تقریب میں شرکت کی جس میں بقول جاوید ہاشمی کے خواجہ آصف نے 15 منٹ تک ان کی تعریف کی اور انہیں زبردست اور مدبر سیاستدان قرار دیا۔ اس بات پر اتنا ہی تبصرہ کروں گا کہ ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ اب تو ن لیگ نے صرف یہی فیصلہ کرنا ہے کہ ہاشمی کو ٹکٹ کس حلقہ دے دیا جائے۔ زہریلی شراب کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر افسوس ہوا۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے واقعات پر قابو پائے کیونکہ ابھی یہ اور بھی بڑھیں گے۔ عوام کی بڑی تعداد معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث ایسی گندی شراب پینے پر مجبور ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے جو عزائم سامنے آئے ہیں اس سے سنگین صورتحال سامنے نظر آ رہی ہے جس کے ذمہ دار نواز شریف ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول پارلیمنٹ میں آ جاتے ہیں تو نئی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں گی، سیاسی تصادم بڑھے گا۔ پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ سابق صدر کی پارلیمنٹ میں آنے کی خواہش حیران کن ہے۔ ہمیں پیپلزپارٹی سے کوئی توقعات نہیں تھیں تحریک انصاف اپنے لائحہ عمل پرر کاربند ہے، صوابی جلسہ سے ابتدا کر دی ہے سیاسی جدوجہد تیز کر رہے ہیں 2017ءمیں الیکشن کا سال ہو گا۔ معروف تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا کہ ایک زرداری بیٹے پر بھی بھاری ہو گیا، آصف زرداری اب پارلیمنٹ میں جا رہے ہیں جہاں وہ اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کریں گے۔ پارلیمنٹ میں جب چیئرمین نیب یا کسی بڑے عہدیدار کے چناﺅ کا معاملہ ہو گا تو زرداری بلاول بھٹو یا خورشید شاہ پر بھی اعتماد نہیں کرینگے۔ اس صورتحال میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ سرکاری افسروں سے پوچھا تو بتایا گیا کہ گڑھی خدا بخش جلسہ میں 10 ہزار افراد شریک ہوئے جبکہ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ 50 ہزار بندے تھے۔ پیپلزپارٹی کا المیہ ہے کہ جب اس پر تنقید کی جائے تو سمجھتے ہیں کہ آپ دشمنوں سے مل کر ایسا کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کی آمد کا تاثر تو انور مجید کے دفاتر پر چھاپوں سے ہی دم توڑ گیا۔ زرداری تو کراچی کو بھی اپنے لئے محفوظ نہیں سمجھتے جبکہ صوبائی حکومت ان کی اپنی ہے، مرتضیٰ بھٹو فیملی کے ساتھ الائنس کی بات بھی انہوں نے کی جو فضول افواہوں پر ختم ہوئی۔ آصف زرداری خوب آگاہ ہیں کہ ان کے پاس اب عوام کو بہلانے کیلئے کوئی خوشنما نعرہ نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے جو عزائم سامنے آئے ہیں اس سے سنگین صورتحال سامنے نظر آ رہی ہے جس کے ذمہ دار نوازشریف ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول پارلیمنٹ میں آ جاتے ہیں تو نئی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں گی، سیاسی تعاون بڑھے گا۔ پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ سابق صدر کی پارلیمنٹ میں آنے کی خواہش حیران کن ہے۔ ہمیں پیپلزپارٹی سے کوئی توقعات نہیں تھیں تحریک انصاف اپنے عمل پر کاربند ہے، صوابی جلسہ سے ابتدا کر دی ہے سیاسی جدوجہد تیز کر دی ہے 2017ءمیں الیکشن کا سال ہو گا۔