تازہ تر ین

غربت کا کیسے خاتمہ ہو سکتا ہے

ڈاکٹر عمرانہ مشتا ق
ریاست مدینہ کے حقیقی خد و خال کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مثالی معاشرہ کی تشکیل میں ریاست مدینہ ہی حقیقی مثالی معاشرہ کا آئینہ ہے جس میں کوئی فرد بھوکا نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کوئی بیروزگاری کا رونا رو سکتا ہے، فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی ضمانت ہے، پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک ایک بھی عوام کو راہنما نہیں ملا سوائے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے، ان کو بھی مہلت نہ مل سکی اور وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے، ان کے بعد عوام بھی قوم نہ بن سکی اور عوام کو راہنما نہ مل سکا، جیسی عوام ویسے ہی سیاستدان ملتے تھے اور عوام زخم پہ زخم کھاتے رہے اور مسلسل کھا رہے ہیں،سب سے زیادہ اقتدار کا دورانیہ ہمارے خود ساختہ جلا وطن بادشاہ نواز شریف کا تھا جنہوں نے عوام کی غربت تو ختم نہ کی اپنی آنے والی نسلوں کی آرزو پوری کر دی اور پانچ کروڑ عوام کا لقمہ ء تر پر ان کی اولاد قابض ہے، سیاستدانوں کی بات چھوڑیں ہماری این جی اوز نے غربت کے خاتمے کی دوکانیں کھولی ہوئی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ طعام المساکین پر عمل کیا جائے تو پاکستان میں ایک بھی بے روزگار اور غریب نہیں رہتا مگر یہ لوگ نہیں چاہتے کہ غربت ختم ہو اور اگر ایسا ہو جائے تو ان کے مال پلازے، سٹور اور دوکانیں بند ہو جائیں ان کے کاروبار غربت کی بنیادوں پر استوار ہیں اور غریب ان کی دوکان کی مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ ہے، ہمارے بہت سے معتبر خدمت انسانی کے ادارے اپنے دائرے میں تو غربت ختم کر نہیں سکتے وہ بلوچستان، کشمیر، فلسطین اور شام تک پہنچ جاتے ہیں ان کے جاننے والے افراد خوددار ہیں اور وہ اپنا دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے اور ان کا مطمح نظر بھی یہی ہوتا ہے غربت بڑھتی رہے اور غریب ہمیشہ محتاجی کی زندگی بسر کر کے اس جہان فانی سے کوچ کر جائے، ریاست مدینہ میں این جی اوز کا تصور نہیں وہاں صرف ریاست ہی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زمہ داریاں پوری کرتی ہے،
بات ہو رہی تھی غربت کے خاتمے کی اور جس انداز سے غربت کا خاتمہ ہم چاہتے ہیں اس سے غربت بڑھ رہی اور غریب تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہے، این جی اوز کا تصور سراسر غلط ہے کہ لوگوں کی مدد صرف کھانے کی حد تک کی جائے اور غریبوں کے نام پر فنڈز جمع کر کے ذاتی آسائش کے سامان استعمال میں لائے جائیں، ریاست مدینہ میں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا دور و دراز علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے جہاد کرنے والوں کو اپنے گھر سے فلاح و بہبود کا کام کرنا چاہیئے جس سے میں دعویٰ سے کہہ سکتی ہوں۔ غربت ختم ہو جائے گی غریب اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا اور یہ دوکانداریاں بند ہو جائیں گی، آؤ آج سے ہم عہد کریں کہ سب سے پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے اور ایک دائرے میں سب کو لا کر خود انحصاری، خود کفالت اور خود روزگاری کی شرح کو بڑھا کر پاکستان سے غربت کو دور بہت دور بھگا کر دم لینا ہے یہی ایک جامع نصابِ خوشحالی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے
پاکستانی عوام کا ہجوم منظوم نہیں ہو سکا جس کی وہ سزا کاٹ رہے ہیں، سیاستدانوں نے اپنے اردگرد اپنے خوشامدی اطاعت گزار سپوٹرز اور ووٹرز کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کے فرائض میں اپنے لیڈر کی خدمات کا ڈنڈھورا پیٹنا ہوتا ہے جس کا وہ معقول معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے سیاستدان کا سپورٹر لوگوں کے کام کاج کروا کر پیسے بھی بٹورنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے سیاسی لیڈر سے بھی آگے نکل جاتا ہے آپ خود اپنے حلقے کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں تو آپ محسوس کریں گے کہ میں جو بات کر رہی ہوں وہ آپ کے دل میں پہلے ہی موجود تھی، غربت کا خاتمہ یہ لوگ نہیں چاہتے یہ تو غریب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، غریبوں کے نام پر فنڈز جمع کرنے والی این جی اوز کے سربراہان کی مالی حیثیت کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ان کی اولادیں امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اعلیٰ ترین عہدوں پر سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت پر اپنے آپ کو مامور سمجھتی ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ ان کی اولادیں امریکہ میں مقیم ہیں، غربت کا خاتمہ امیروں کی سخاوت سے حل نہیں ہو گا اور نہ ہی دسترخوانوں پر بھوکوں کو کھانا کھلانے سے ہو گا، اس کے لئیے روزگار اور غربت کے خلاف برسرپیکار رہنے کی ضرورت ہے
ابھی ایک اور غربت کا ریلا اللہ نہ کرئے وہ دامن کوہ ہمالیہ سے آنے والا ہے جس سے پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے اور وہ ریلا ہے افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افغانیوں کی پاکستان میں ہجرت اور ان کی مہمان نوازی کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہو گی اور ان کو ایک مخصوص علاقے میں پابند کرنا پڑے گا وگرنہ پورے پاکستان میں ان کا پھیلاؤ پاکستان کا امن کا توازن بگاڑ دے گا اس لئیے ضروری ہے کہہ ہم پہلے اپنی عوام کو مہنگائی کے جن سے نجات دلائیں اور بجلی پانی، سوئی گیس اور مواصلاتی اخراجات میں کمی لائے یہ بہت ضروری ہے۔
(کالم نگار معروف شاعرہ، سیاسی
وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain