حیات عبداللہ
نوید افزا جذبوں سے عبارت لمحات اور سعید بخت اجالوں میں گندھے احساسات کو عید کہتے ہیں، ہلالِ عید کے جلو میں چاہتوں کی بے شمار رُتیں، بے انتہا وسعتیں اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔دلوں کے اکناف و اطراف میں مَحبّتوں کی پَو پھوٹنے لگتی ہے، پھر فاصلوں کی گرد میں کھوئے لوگ بھی یاد بن کر دل کی دھڑکنوں میں دھڑکتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔جدا ہو جانے والے پیارے ہوں یا بچھڑ جانے والے دُلارے، سب ہی دل کو تختہ ء مشق بنا لیتے ہیں۔حالات نے ہم سے اپنے پیاروں کو چھین لیا ہو یا ہم نے خود ان کو بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا ہو، عید کے دن وہ دل کی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ کتنی ہی بار ایسے بھی ہوتا ہے کہ ہلالِ عید کو دیکھ کر پلکوں پر آنسوؤں کے ستارے جھلملانے لگتے ہیں، جدا ہو جانے والوں کی یادیں نوکِ مژگاں پر موتیوں کی مانند سج کر رہ جاتی ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ماضی بعید میں ہمارے اسلاف کی عید ہمہ قسم کی قربانیوں پر مشتمل ہوتی تھی مگر اب لوگ قربانی کی محض ایک قسم کو زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں۔
جانوروں کی قربانی کے پس منظر میں جو حقیقی مقاصد کارفرما ہیں، ان سے ہم کوسوں دُور ہوتے چلے گئے ہیں۔بکروں چھتروں کی قربانی اتنا مشکل کام ہرگز نہیں ہے، بازار سے تِیس چالیس ہزار کا بکرا لے کر، اس کے گلے پر چھری چلا دینا، گوشت کھا لینا اور قربانی کی کھالیں فی سبیل اللہ دے دینا، یہ تو کارِ محال اور کارِ دشوار نہیں ہے۔کیا یہ سب کچھ کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانی کا حق ادا کر دیا، نہیں ایسا تو ہرگز نہیں ہے، بکرے کی قربانی سے قبل اپنے دل میں انا کے اس سانڈھ پر بھی چھری چلا دیجیے جس نے اعزّہ واقربا کی جانب جانے والی راہیں مسدود کر چھوڑی ہیں۔وہی انا جس نے رشتوں ناتوں کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دی ہے جسے پاٹنا حسّاس اور متّقی لوگوں کے لیے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔قربانی کے جانور کا سارا گوشت انسان کھا جاتے ہیں، اس کی کھال انسانوں کے کام آتی ہے، اللہ ربّ العزّت کی جناب میں تو تقویٰ ہی پہنچتا ہے اور اگر قربانی تقویٰ سے تہی ہے تو دراصل ہم نے قربانی کی ہی نہیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ تقویٰ اور رشتوں ناتوں میں دراڑیں ڈالنے والی انا کبھی ایک دل میں یکجا نہیں ہو سکتے۔
ہم کسی پہلوان کی طرح ہمہ وقت انا کے محاذ پر معرکوں میں مصروف ہیں اور رفتہ رفتہ، باری باری ہر رشتے کو پچھاڑتے چلے جا رہے ہیں۔ہم اتنے جری، دلیر اور نڈر بن چکے ہیں کہ انا کے میدان میں ہمیں کوئی مات دے ہی نہیں سکتا۔انا کے محاذ پر کسی پیارے شخص کو دونوں شانے چِت کر کے بھی ہمیں قرار نہیں ملتا اور ہم اسی پر اکتفا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ ہمارے دلوں میں نفرتیں اُگنے لگتی ہیں، پھر حقارتیں اور اس کے بعد عداوتوں کی آخری سیڑھی پر ہم ہر رشتے کو لاکھڑا کرتے ہیں۔ثنائاللہ ظہیر کا بہت عمدہ شعر ہے۔
کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
معلوم نہیں اخلاق، معاملات اور تعلّقات کو دِینِ اسلام کا حصّہ نہ سمجھنے کی غلطی کس سَمے اور کس لمحے سوچ کے زندان میں یوں داخل ہوئی کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔عبادت میں نفاست اور نظافت پیدا کرنے کے لیے ہر پَل تیار رہنے والے لوگ بھی تعلّقات میں تمازت اور لطافت پیدا کرنے کے لیے کسی لمحے تیار نہیں ہوتے۔نمازوں کا اکرام، روزوں کا احترام، حج، زکوٰۃ اور قربانی کا التزام کرنے والے لوگ بھی کبیدہ خاطر تعلّقات پر مَحبّتوں کی کشیدہ کاری کا اہتمام نہیں کرتے۔ سوچیے! کہ اگر ہم فقط اللہ کے لیے انا کے محاذ سے پسپائی اختیار کر لیں تو ہماری ذات اور شخصیت پر بال برابر بھی حرف نہیں آتا لیکن پھر بھی ہم ایسا کرنے پر آمادہ نہیں۔
گھروں، جماعتوں اور تنظیموں میں ”اختلاف“ کے حق کو اختلاف رائے اور مشورے تک محدود رکھنے سے کوئی اتنی ترش اور ثقیل قباحتیں جنم نہیں لیتیں مگر ”اختلاف“ کے اِس حق کو لوگ”مخالفت“ کے حق میں بدل دیتے ہیں، مخالفت بھی دائمی اور ازلی، مخالفت بھی ایسی کہ پھر فریقِ مخالف کے تحسین یافتہ قول و عمل میں بھی کیڑے رینگتے دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ عید کا دن ایک مخصوص نصابِ مَحبّت رکھتا ہے، ایک ایسا عنوانِ چاہت کہ جو ناراض اور رُوٹھے لوگوں کی یاد میں محض پلکوں پر چند آنسو سجا لینے تک محدود نہیں، جو دلوں سے دُور جا بسنے والے لوگوں کے لیے محض تحسین اور تحمید کے چند کلمات ادا کرنے پر کفایت نہیں کرتا بلکہ پھوک بنے پھیکے رشتوں میں اجلے رنگوں کے رَس بھر دیتا ہے۔عید کے لیے مُرتّب کیا گیا یہ نصابِ مَحبّت کوہِ انا کو پاش پاش کر ڈالتا ہے، یہ تکبّر اور نخوت کو اکھاڑ اور پچھاڑ دیتا ہے، یہ سچّے اور سندرجذبوں کی راہ میں حائل تمام رخنوں کو ختم کر ڈالتا ہے، یہ گریز پائی کی کھائی میں گرے انسان کو قربتوں کا اوجِ کمال عطا کر دیتا ہے، یہ رشتوں ناتوں میں گھلی بد ذائقہ کھٹاس کو خوش ذائقہ مٹھاس میں بدلنے کے لیے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
خدارا!اِس بار انا کے فرسودہ جذبے کو لتاڑ دیجئے اور تعلّقات کو مسموم کرنے والے شیطان کو پچھاڑ کر ان اپنوں کو سینے سے لگا لیجیے جو اپنے ہونے کے باوجود اپنے نہیں رہے، ان کو مَحبّت دیجیے، آپ کو سکون ملے گا، ایک ایسا قرار ملے گا جو شاید زندگی میں کبھی آپ کو نہ ملا ہو۔بلوان سنگھ آذر نے بہت عمدہ شعر کہا ہے۔
ہار جائے گی یقینا تیرگی
گر مسلسل روشنی زندہ رہی
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭