تازہ تر ین

آہوئے صیاد دیدہ

کرنل (ر) عادل اختر
افغانستان ایک آہوئے صیاد دیدہ ہے۔ وادیاں ویران، میدان بیابان ہیں‘ ویرانے میں نہ جانے کون سی کشش ہے کہ سپر پاورز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اس وادی غیر ذی زرع میں پانی کم برستا ہے اور خون زیادہ۔ یا تو سدا خانہ جنگی چلتی رہتی ہے یا غیر ملکی افواج امن کو روند رہی ہوتی ہیں۔ جو شدت موسم میں ہے وہی یہاں کے باشندوں میں ہے۔ قبائلی مزاج کبھی نچّلا نہیں بیٹھنے دیتا۔ ان کی پیاس خون سے بجھتی ہے۔ چاہے خون اپنا ہی کیوں نہ ہو۔
سترہویں صدی میں انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ جمانا شروع کیا تو روسیوں کے دل میں بھی گرم پانی کی ایک بندرگاہ پر قبضے کا خیال آیا۔ کوئی ڈیڑھ دو سو برس تک برطانیہ اور روس کے درمیان پنجہ آزمائی چلتی رہی جسے Great Game کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برطانیہ کے سینکڑوں کھوجی اور جاسوس اس علاقے میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ سیاحوں، تاجروں، ملاؤں کے روپ میں۔ کابل، سمر قند، بخارا میں جابر اور ظالم حکمران مسلط تھے۔ راستے ڈاکوؤں سے پٹے پڑے تھے۔ ناقابل برداشت گرمی یا سردی۔ پانی کی نایابی، زہریلے کیڑوں مکوڑوں، مکھیوں اور مچھروں کی کثرت ایک انگریز سیاح نے اپنی ڈائری میں لکھا۔ Heat in this area is move deadly than the sword of eremy انگریزوں کی جیب میں دو بھرے ہوئے پستول آنکھوں پر دوربین، ہاتھ میں قطب نما تھیلے میں طرح طرح کی دوائیں دل میں شوق مہم جوئی، انگریز راستے کھوجتے فوجی نوعیت کی معلومات حاصل کرتے‘ اگر انگریزوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو سمر قند و بخارا پر بھی ان ہی کا قبضہ ہوتا۔ افغان تاریخ خون سے لالم لال ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو حبیب اللہ بادشاہ تھے انہیں قتل کر دیا گیا تو نادر شاہ بادشاہ بنے۔ انہیں قتل کر دیا گیا تو ان کے بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بنے۔ 1973ء میں انہیں معزول کر کے ان کے کزن داؤد خان صدر بن گئے۔ چند سال کے بعد انہیں ان کے خاندان کے ساتھ صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا اور ایک بوڑھے سیاست دان نور محمد ترکئی کو صدر بنا دیا گیا۔ چند برس کے بعد نور محمد ترکئی کو گلا گھونٹ کے مار دیا گیا اور حفیظ اللہ امین صدر بن گئے۔ چند برس کے بعد امین اللہ حفیظ کو بھی بمعہ خاندان صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا اور ببرک کارمل کو صدر بنا دیا گیا۔ چند برس کے بعد ببرک کارمل کا صفایا کر کے ڈاکٹر نجیب اللہ کرسیئ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔ روسی افواج واپس گئیں تو نجیب اللہ فرار ہو گئے۔ محکمہ جاسوسی کے سربراہ نے خودکشی کر لی۔ نجیب اللہ کو ڈھونڈ نکالا گیا اور پھانسی دے کرکھمبے سے لٹکا دیا گیا۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہ رہے۔ 1979ء میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ پاکستان میں ایک زبردست سیاسی زلزلہ محسوس کیا گیا۔ ایک سپر پاور دروازے پر آ کر بیٹھ گئی۔پاکستان ایک سپر پاور کو کس طرح روک سکتا ہے۔ دانشوروں نے سوچا۔ اب جلد ہی روسی سپاہی پنڈی اور پشاور کے کلبوں میں بیٹھ کر وڈکا پیا کریں گے۔ کراچی کی بندرگاہ کو جدید اور عظیم بنانے کا منصوبہ شروع ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان کے پاس دو آپشن تھے۔ روس کے سامنے سینہ سپر ہو جائے یا گھٹنے ٹیک دے۔ دونوں آپشن خطروں سے بھرپور تھے۔ پاکستان نے روس سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان میں اسلحہ اور ڈالروں کی برسات شروع ہو گئی دشمنوں نے الزام لگایا کہ جنرل ضیا نے آدھا اسلحہ اپنی فوج کو دے دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کا ایٹمی پروگرام چل رہا تھا۔ امریکہ کبھی پاکستان کو ایٹم بم نہ بنانے دیتا۔ لیکن سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے صَرفِ نظر کر لیا……اس طرح افغانستان میں جنگ ہوتی رہی اور کہوٹہ میں بم بنتا رہا……جنگ میں افغان بہت اچھے سپاہی ثابت ہوئے سخت جان اور مستقل مزاج جبکہ روسی اچھے سپاہی ثابت نہ ہوئے۔ ان کی برتری ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کی وجہ سے تھی۔ چند سال کے بعد جب امریکہ سے اسٹنگر میزائل آئے تو انہوں نے افغانستان کو جہازوں اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ برتری جاتی رہی۔ روسی سیکس اور شراب (ٹھرا) کے عادی ہو گئے۔ اور بڑی بے دلی سے لڑتے تھے۔روس میں حکمران بدلتے رہے 1988ء میں نئے صدر گوربا چوف نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا۔
نقصانات: اس جنگ میں روس کے ساٹھ سے ستّر ہزار فوجی مارے گئے یا معذور ہو گئے۔ ہزاروں جہاز، ہیلی کاپٹر، ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہوئیں اربوں ڈالر کے اخراجات ہوئے واپسی پر روسی فوجوں کا استقبال بڑی سردمہری سے ہوا……روس میں مہنگائی اور بے روزگاری کا غلبہ تھا۔ بارہ تیرہ لاکھ افغان مارے گئے یا معذور ہو گئے لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ لاکھوں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ پچاس لاکھ افغان وطن چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ پچیس لاکھ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو گئے۔ ستّر ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ جنگ ختم ہوئی تو مجاہدین خوش تھے کہ انہوں نے روس کو ہرا دیا۔ روس خوش تھا کہ اے بے حاصل جنگ سے جان چھوٹی۔ امریکہ خوش تھا کہ اس نے روس کی گرم پانی تک رسائی نہ ہونے دی۔
دونوں سپر پاورز نے جنگ میں کئی ٹریلین ڈالر جھونک دیئے۔ اگر اس کی آدھی کی آدھی رقم افغانستان کی ترقی پر خرچ کی گئی ہوتی تو افغانستان ایک ترقی یافتہ چمن بن گیا ہوتا۔ لعنت ہے انسان کی ہوس اور ملک گیری پر افغانستان کی سرزمین پر دنیا کے کئی عظیم انسان پیدا ہوئے۔ مولانا روم اور حضرت داتا گنج بخش کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے افکار سے پوری دنیا میں روشنی ہوئی۔ اور بھی ہزاروں افغان، صوفی، علماء اور اولیاء برصغیر کی زمین آسودہ ہیں۔ غالبؔ کے دادا بھی افغانستان، ازبکستان کے سرحدی علاقے سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔ علامہ اقبال نے افغانستان کے ویرانوں میں حُسن کا گنج گرانمایہ دریافت کیا۔
اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دلسوزی، سرمستی و رعنائی
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain