لاہور/کراچی(ویب ڈیسک)قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے آسٹریلیا کے خلاف تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے پہلے مصباح الحق کی قیادت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ٹیم اور بورڈ دونوں میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے،انڈہ دینے والی مرغی کو کاٹا نہیں کرتے، چار اوورز یا دس اوور کرنے ہوں تو باﺅلرز کی گرپ بھی ٹھیک ہوجاتی ہے اور سوئنگ بھی ہونے لگتی ہے ، عامر کی فٹنس ٹھیک نہیں تھی، دو ٹیسٹ ہارنے کے بعد باﺅلر کیلئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے ،ہماری ٹیم میں کوئی ایسا باﺅلر نہیں جو پانچ کھلاڑیوں کو آﺅٹ کر سکے۔۔ان خیالات کا اظہار راشد لطیف ، وسیم اگرم اور شعیب اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرکٹ بورڈ ایک سونے کی کان ہے اور ہر کوئی اسی کوشش میں ہے کہ اس کو جتنا کھا سکتے ہو کھا لو، یہ ہماری قوم کا المیہ ہے، ڈسٹرکٹ سے لے کر چیئرمین کرکٹ بورڈ تک جس کا جہاں ہاتھ لگے گا وہ مارے گا، اسے ملک یا کرکٹ سے محبت نہیں ہے۔یہ پاکستانی ٹیم ہے جس کے فاسٹ باﺅلرز کو ہندوستانی ٹیم رشک سے دیکھتی تھی لیکن آج ہمارے فاسٹ باﺅلرز نیچے ہیں اور ہندوستان کے زیادہ اچھے ہیں، اس سے زیادہ شرمندگی کی بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔’انڈہ دینے والی مرغی کاٹا نہیں کرتے لیکن یہ آدھا کاٹ چکے ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ آپریشن تھیٹر میں پڑا ہوا ہے، وقت آنے سے پہلے صحیح آپریشن کر دیں ورنہ اگر اس نے انڈہ دینا بند کردیا تو مشکل ہو جائے گی۔انہوں نے کرپشن کو پاکستان کرکٹ کے زول کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں کرپشن ہو گی وہاں کھیل تنزلی کا شکار ہو گا اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں کھیل کا اتنا جوش و جذبہ ہے کہ ایک ماہ میں تین ٹیمیں کھڑی ہو جائیں۔یہی کھلاڑی جب پاکستان کھیلتے ہیں تو پرفارم نہیں ہوتا لیکن جب پی ایس ایل، بگ بیش یا جہاں کہیں بھی کھیلیں تو پرفارم کرتے ہیں، یہاں کیوں نہیں کر رہے۔پروگرام میں شریک سابق اوپننگ بلے باز محمد وسیم نے بھی سابق کپتان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب چار اوورز یا دس اوور کرنے ہوں تو باﺅلرز کی گرپ بھی ٹھیک ہوجاتی ہے اور سوئنگ بھی ہونے لگتی ہے لیکن ٹیسٹ میں ایسا نہیں ہے۔راشد لطیف نے بھی طویل دورے پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انگلینڈ جانے سے قبل بوٹ کیمپ لگایا لیکن اس کے بعد سے ٹیم آج تک وطن واپس نہیں آئی اور طویل دوروں کے سبب پاکستانی کھلاڑی شدید تھکن کا شکار ہیں۔قومی ٹیم کے سابق کپتان نے مصباح الحق کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے اسے حد سے زیادہ دفاع قرار دیا اور کہا کہ سات اوورز میں فیلڈ کھول دی گئی اور گیارہویں اوور میں یاسر کو بالنگ پر لانا حماقت تھی۔ثقلین مشتاق نے کہا کہ اگر یاسر شاہ ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں آسٹریلیا میں 11ویں اوور میں بالنگ کیلئے لایا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بالرز، کپتان، کوچنگ یا سپورٹ اسٹاف میں خرابی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، یاسر کو کم از کم 25 اوورز کے بعد بالنگ کیلئے لانا چاہیے تھا۔شعیب اختر نے بھی باﺅلنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عامر کی فٹنس ٹھیک نہیں تھی، دو ٹیسٹ ہارنے کے بعد بالر کیلئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے لیکن ذاتی طور پر کھلاڑی اپنے معیار خود متعین کرتے ہیں۔ہماری ٹیم میں کوئی ایسا بالر نہیں جو پانچ کھلاڑی آٹ کر سکے۔