خیر محمد بدھ
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی اساس اسلام ہے آئین پاکستان میں بھی اور قرار داد مقاصد میں بھی کہا گیاہے کہ ملک میں اسلامی نظام حکومت ہو گا کیوں کہ ہماری آبادی کی اکثریت مذہب اسلام سے بے حد لگاؤ رکھتی ہے اور مذہبی عنصر نے ہمیشہ ملک کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔وزیراعظم پاکستان نے جب ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا اعلان کیا تو عوام نے اس اعلان کو بہت پسند کیا۔اس لیے کہ اسلام ایک مکمل طرز زندگی ہے جس میں کسی قسم کے استحصال کی گنجائش نہیں ہے اب حکومت نے اپنے تین سال مکمل کرلیے ہیں لیکن عملی طور پر ریاست مدینہ کی منزل ابھی دور دکھائی دیتی ہے اس منزل کو حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔ 1971ء میں جب سرحد میں مفتی محمود صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے وزیر اعلیٰ کے کچن کو بند کر کے زمین پر بیٹھ کر اسلامی روایت کے مطابق کھانے کا رواج شروع کیا۔اس دسترخوان میں ان کا عملہ اور ملاقاتی بھی شامل ہوتے تھے اور وہ سبھی لوگ سادہ کھانا کھاتے تھے۔اس سے لاکھوں روپے کی بچت ہوئی اورسادگی کی مثال بھی قائم ہوئی۔ ملک میں پہلی بار انہوں نے ماہ رمضان میں مکمل احترام کا حکم دیا کھانے پینے کے ہوٹل بند کئے۔خلاف ورزی کرنے پر سخت سزائیں دیں شراب پر پابندی لگائی اس طرح دنیا نے دیکھا کہ جب انقلاب ایران آیا تو عالمی سربرا ہ بھی جب رہبر انقلاب امام خمینی سے ملنے جاتے تھے تو یہ درویش فرش پر بیٹھے ہوئے ان سے ملتے تھے تمام اکابرین اور وزرا ء کو پانچ وقت کی نماز مسجد میں جا کر پڑھنے کا پابند کیا گیا۔
مجھے ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر حبیب الرحمن بتا رہے تھے کہ وہ ڈبلیو ایچ اوWHO کے زیراہتمام ایران میں کام کرتے تھے جب وزیر صحت کے ساتھ میٹنگ ہوتی تھی تو ظہر کی نماز سب مل کر پڑھتے تھے اور پھر سیکرٹریٹ کی کینٹین پر وزیر اور عملہ سبھی جاکر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور ان کے ایک صدر احمدی نژاد دفتر جاتے ہوئے اپنا کھانا ساتھ لے کر جاتے تھے اور جب بھی سرکاری وفد سے ملاقات کرتے تھے تو وہ انہیں سرکاری فنڈ سے کھانا دیتے تھے جبکہ خود اپنے گھر کا کھانا کھاتے تھے اور پھر موجودہ صدی میں دنیا نے دیکھا طالبان جنہوں نے اسلامی حکومت کا اعلان کیا ہے۔انتہائی سادگی کے ساتھ امور حکومت چلا رہے ہیں ایک صوبے کے گورنر خود ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کراپنے عملہ کے ساتھ صفائی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں طرز زندگی بدلنے سادگی اور کفایت شعاری کو شروع کرنے اسلامی اقدار کو اپنانے میں کوئی بھی مشکل نہیں ہے۔اس کے لیے نہ تو فنڈز درکار ہیں اور نہ ہی کسی قانون سازی کی ضرورت ہے۔یہ نیت سوچ اور مائنڈ سیٹMind Set کا معاملہ ہے۔آپ فیصلہ کریں اور اگلے منٹ میں عمل کریں۔اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں جن کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔انہوں نے سرکاری اجلاسوں میں صرف چائے اور بسکٹ کی اجازت دے کر سادگی کی اچھی مثال قائم کی ہے۔ملک میں پناہ گاہ اور لنگر خانے قائم کرکے مسافروں اور غریب لوگوں کیلئے راحت اور آرام کے اسباب فراہم کیے ہیں۔بیرونی دورے میں اخراجات میں بہت کمی کی ہے۔سرکاری اخراجات میں ماضی کی نسبت بہت کمی آئی ہے۔وزیراعظم نے اپنی فیملی اور رشتہ داروں کو امور سلطنت سے علیحدہ رکھا ہے اور انہیں سرکاری پروٹوکول کی سہولت سے محروم کیا ہے لیکن ان کے ذاتی اقدامات سے معاشرتی طور پر حیران کن تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ ہی اس کے اثرات نیچے تک آئے ہیں۔
عربی زبان کی کہاوت ہے کہ لوگ بادشاہوں کی تقلید کرتے ہیں ” الناس علی دین ملوکھم “حکمران اور صاحب اقتدار جس طرز زندگی کو اختیار کریں گے باقی لوگ بھی ان کی تقلید کریں گے جنرل ضیاء نے پہلی بار شلوار قمیض اور واسکٹ کومتعارف کرایا سب سیاست دان اور بیوروکریٹ بھی کوٹ پتلون چھوڑ کر اسی لباس میں نظر آنے لگے انہوں نے دفتری اوقات میں نماز کی ادائیگی لازمی قرار دی کہا جاتا ہے کہ نماز کے وقت بعض بیورو کریٹس بغیر وضو کے ہی صف میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
ریاست مدینہ کا تصور بہت ہی اعلیٰ سوچ ہے۔اس میں عوام کی فلاح و بہبود بھی ہے اور ریاست کا استحکام بھی۔اس پر عملدرآمد فوری ہونا چاہیے۔انقلاب جب بھی آتا ہے تو وہ فوری طور پر تبدیلی لاتا ہے چیزوں کوبلاتاخیر تبدیل کر دیا جاتا ہے اگر اس میں وقفہ آ جائے تو پھر دشمن طاقتیں رخنہ ڈالنا شروع کر دیتی ہیں اور آدھا تیتر آدھا بٹیر کی شکل میں وہ لٹک جاتا ہے۔وزیر اعظم کی نیت پر کسی کو شبہ نہیں ہے بیشک وہ وزیراعظم ہاؤس یا گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی نہ بنائیں لیکن اپنے وزیر‘ وزرائے اعلیٰ اور بیوروکریٹ حضرات کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور وہ بھی اپنے دفاتر کی مساجد میں دیگر لوگوں کے ساتھ، کھانے پینے میں بھی اسلامی طرز کی طرح عام لوگوں کے ساتھ سادہ کھانا کھائیں اور صرف فوٹو سیشن کے لیے نمائشی طور پر نہیں بلکہ روزانہ کا معمول بنائیں،دفتروں میں بیٹھنے کے بجائے عوام کے پاس فیلڈ میں بغیر اطلاع جائیں۔ را ت کے وقت نکلیں،بھیس بد ل کر صورت حال کا جائزہ لیں۔ اگر خلفائے راشدین راتوں کو اپنی رعایا کی خبر گیری کرتے تھے اور وہ بھی پیدل چل کر اور اپنی پیٹھ پر آٹااور راشن لے کر آج کے وزیر اعلیٰ اور وزرا ء کے پاس تو گاڑیاں اور وسائل ہیں وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے جو کھلی کچہریاں بیوروکریٹ اپنے ایئرکنڈیشن دفتروں میں کر رہے ہیں وہ مساجد میں بیٹھ کر کریں جزا اور سزا کے عمل میں کوئی بے ایمانی نہیں ہونی چاہیے۔ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ اور کم تولنے والوں کو اسلامی سزائیں دی جائیں۔ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کرنے کیلئے کسی قانون یانئی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ تو ماڈل موجود ہے صرف اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز اوپر سے ہونا چاہیے اگر حکومت ریاست مدینہ کے اصولوں پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل کرنا شروع کر دے تو اس سے معاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔لوگوں کے رویے اور سوچ میں تبدیلی آئے گی گورننس بہتر ہوگی لوگوں کے مسائل حل ہوں گے حکمرانوں کیلئے آسانیاں ہوں گی۔ ریاستی اخراجات میں بچت ہوگی۔ ملک ترقی کرے گا اخلاقی اقدار مضبوط ہوں گی۔پاکستان میں ایک زمانہ تھا کہ وزیر اعلیٰ صاحب سیکرٹریٹ میں بیٹھتے تھے وہ وقت پر آتے تھے تو سب سیکرٹری صاحبان اور عملہ بھی وقت کی پابندی کرتا تھا‘ اخراجات میں بھی بچت ہوتی تھی‘پنجاب میں نواز شریف نے اپنا دفتر سیکرٹریٹ کے بجائے جی او آر بنایا اور پھر سب آفس بنائے‘ان پر بہت اخراجات آئے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس سے لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور انتظامی امور پر گرفت بھی کمزور ہوتی ہے۔ابھی حکومت کے پاس دو سال باقی ہیں اب بھی ریاست مدینہ کیلئے عملی اقدامات ہو سکتے ہیں۔وزیراعلیٰ‘ گورنر‘ وزراء‘ سینئر بیوروکریٹ اپنے انداز اور ذہن کو بدل لیں اپنے طرز زندگی کو عوامی بنائیں‘اپنے دفاتر میں وقت پر آئیں‘دن رات کام کریں‘سادگی کو اپنائیں‘پروٹوکول کو کم کریں‘ کھانے پینے اور سرکاری کچن کے اخراجات کو ختم کریں‘سیکرٹریٹ میں موجود کینٹین سے سبھی وزراء‘ وزیر اعلیٰ اور بیوروکریٹ ایک ساتھ کھانا کھائیں۔ عوام سے روابط کو بڑھائیں۔زندگی کو بدلنے میں تو حکمرانوں کا اختیار ہے۔اس سے حقیقی تبدیلی بلکہ نظام کی تبدیلی عملی طور پر نظر آئے گی۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭