تازہ تر ین

حُریت اورقومی شناخت کاروشن اِستعارہ

حسین مجروح
21ستمبر1857ء رائے احمد خان کھرل کی شہادت کا دن ہے۔ انگریزی استعمار کے خلاف بے مثل مزاحمت اورشجاعت کے بیچ‘احمد خان کھرل اوران کے جانثار ساتھیوں کی شہادت‘ تاریخ حریت کاروشن باب تو ہے ہی لیکن اُن کی عزیمت اور آزادی کی راہ میں جان ومال قربان کردینے کی قابل فخر مثال نے پنجاب کاغیرت مند چہرہ اور سیاسی استقامت سے لبریز کردار اُجالنے میں بھی اہم کردار ادا کیاہے‘ جسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگریزوں اور بعض مقامی لیکن متعصب مؤرخین نے ٹوڈی اور طاقت کے آگے سرنگوں ہوجانے والے خطے کے طورپر متعارف کروانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ حالانکہ پورس کی سکندر کے خلاف بھرپور جنگ‘گکھڑوں کی مغلوں اور افغانیوں کے مقابل مسلسل مزاحمت‘ دُلابھٹی کی اکبرکے خلاف مسلح بغاوت اور انیسویں صدی کے وسط میں نیلی بار کے کھرلوں‘ فتیانوں اور وٹوؤں کی برطانوی سامراج کے خلاف مبارزت‘ پنجاب کے حُریت آگیں چہرے کی گواہی اور اپنی دھرتی کی حرمت کے لئے کٹ مرنے کی روشن ترین مثالوں کی موجودگی پنجاب کے حقیقی کردار کا تعارف کروانے کے لئے کافی ہے۔ رہے ٹوڈی اور غدار تو وہ دنیا کے کس حصے میں نہیں پائے جاتے لیکن کسی بھی قوم یا خطے کی تاریخ‘ بے ضمیروں سے نہیں‘ سورماؤں اور لوک سیوا کرنے والوں سے پہچانی جاتی ہے۔
خیر یہ تو جملہئ معترضہ تھا‘ ورنہ احمد خان کھرل کی آزادی کے لئے تڑپ اور اپنی زمین سے وفاداری کاجوہر‘ ان کے اس تاریخی مکالمے میں تلاش کیا جاسکتاہے جو انہوں نے گوگیرہ کے انگریز اسسٹنٹ کمشنربرکلے کو حرف انکار کے طورپرکردار ادا کیا کہ ”ہم لوگ اپنی زمینیں‘عورتیں اورگھوڑے دوسروں کو نہیں دیا کرتے“ اس جملے کے سیاق وسباق کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخ میں کچھ پیچھے جانا ہوگا۔
پنجاب میں برطانوی اقتدار1849ء میں قائم ہو چکا تھا جسے مستحکم کرنے کے لئے قابض انگریزوں نے جا بجا مالگزاری‘ جیلوں اور انتظامی دفاتر کا جال بچھانا شروع کردیاتھا۔ اس قبضے کے ٹھیک آٹھ سال بعد‘ یو پی اور ملحقہ علاقوں میں مقامی لوگوں نے انگریز سامراج کے خلاف جنگ آزادی کااعلان کردیا جسے انگریز بہادر نے ”غدر“ کانام دیا۔ یہ جنگ آزادی جس کا آغاز مئی1857ء میں میرٹھ چھاؤنی سے ہوا۔ آن کی آن میں ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی اورباغیوں نے انگریزی چھاؤنیوں اور دفاتر کے علاوہ انگریزوں کوپکڑ کرقتل کرنا بھی شروع کردیا۔ بغاوت کی اس لہر کو کچلنے کیلئے انگریزکو دیگر صوبہ جات سے بھرتی اورگھوڑوں کی ضرورت محسوس ہوئی اوراسی ضمن میں برکلے نے احمدخان کھرل شہید سے بھی جو نہ صرف راوی کنارے آباد کھرل قبیلے کے سردار تھے بلکہ دیگر جانگلی قبائل میں بھی گہرا رسوخ رکھتے تھے۔انگریزوں کی مدد کامطالبہ کیا۔ رائے احمد خان کھرل کاجواب دھرتی کے ایک سچے سپوت کاجواب تھا لیکن نشہ استعمار میں چُور برکلے کی انا اور انگریزی اقتدار کیلئے ایک تازیانہ۔ سو انگریزوں نے احمد خان کھرل کے گاؤں جھامرہ پرحملہ کردیا۔ احمد خان کھرل اُن کے ہاتھ نہ آئے تو انہوں نے پوری بستی کو آگ لگادی۔ جھامرہ اور اردگرد کے لوگوں کے علاوہ عورتوں‘ بچوں جن میں احمدخان کھرل کے اہل وعیال بھی شامل تھے‘ کوقیدی بناکر گوگیرہ جیل میں ڈال دیا۔ تاہم چندہی روز بعدمراد فتیانہ اور بہلول فتیانہ نے گوگیرہ جیل پر حملہ کرکے تمام قیدیوں کو چھُڑوا لیا۔
اگرچہ احمد خان کھرل کا انکار اور گوگیرہ جیل پر حریت پسندوں کے حملے نے نیلی بار کے جانگلی قبائل میں آزادی کی لپک اور انگریزوں کی بے دخلی کی لہر کو ایک منہ زو طوفان میں بدل دیا تھا لیکن آزادی اور انگریز سے نجات کی چنگاری تو اس وقت سے سلگنی شروع ہو چکی تھی جب 1849ء میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریز نے وہاں لگان اور آبیانے کے نام پر ظالمانہ ٹیکس لاگو کردیئے اور معاشرتی زندگی میں مداخلت شروع کردی تھی۔ گوگیرہ جیل ٹوٹنے کے بعد‘ آزادی کی تحریک اس قدر عروج پکڑ گئی کہ اس کے دائرہ کار کا پھیلاؤ‘ راوی سے ستلج کے درمیانی علاقوں تک پھیل گیا اور مجاہدین کی تعداد‘ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ تک پھیل گئی۔ مجاہدین کے حملوں اور روز بہ روز پھیلتے اثرورسوخ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تین ماہ تک ساہیوال اور ملتان میں انگریزکی عمل داری ختم ہوگئی اور مجاہدین آزادی کا غلبہ قائم ہونے سے کمالیہ‘ چیچہ وطنی‘ اوکاڑہ‘ دیپالپور اور پاکپتن آزادی کے متوالوں کے نشیمن بن گئے۔ چنانچہ لاہور ملتان سے گورا فوج کے تازہ دم دستوں اور توپ خانے کو انگریز کے باغیوں لیکن دراصل حریت پسندوں کی سرکوبی کیلئے طلب کرلیا گیا۔ مجاہدین آزادی نے جو جدید اسلحے اور توپ خانے سے محروم تھے‘ برطانوی استعماریوں کا نیزوں‘ تلواروں اور تیروں سے خوب مقابلہ کیا اور کئی مقامات پر انہیں پسپا ہونے پر مجبور بھی کردیا۔ قریب تھا کہ ان کی جدوجہد مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی جس میں ان کے جانی مالی نقصان کا تناسب انگریزوں کی نسبت اگرچہ زیادہ تھا لیکن سرفروشی کی تمنا نے ان کی ہمتوں اور جذبوں کو بدستور جوان رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ملتان‘ مثال پور‘ جلال پور پیروالہ کے گدی نشینوں کی غداری‘ امیر بہاولپور کی انگریزوں کیلئے حمایت اور کمالیہ کے سرفراز کھرل کی مخبری کے باعث‘ مجاہدین آزادی کی بڑی تعداد کو انگریزوں نے تہہ تیغ کرنا شروع کردیا اور تحریک کا دائرہ سمٹ کر راوی کے کناروں تک آگیا۔ اس تگ وتاز کا فیصلہ کن معرکہ گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل میں برپا ہوا۔ جہاں انگریزوں اور سکھوں کے مشترکہ دستوں نے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کا محاصرہ کرلیا۔ مجاہدین نہایت بے جگری سے لڑے لیکن تابہ کے۔
یہ 21ستمبر 1857ء کا دن تھا۔ صبح سے سہ پہر تک گھمسان کا رن پڑا۔ اسی دوران نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں نے میدان جنگ ہی میں وضو کیا اور نماز شروع کردی۔ یزیدیوں کی طرح گورا اور سکھ فوجوں نے ان کی نماز ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور دوسری رکعت میں ہی احمد خان کھرل اور ان کے درجن بھر ساتھیوں پر فائر کھول دیا۔ یوں 81سالہ سالارِ آزادی نے راہ حق میں جرأت اور عزیمتِ کردار کی روشن ترین مثال قائم کرتے ہوئے‘ اپنے جانثاروں کے ہمراہ‘ آزادی کی راہ میں متاع حال کو نچھاور کردیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(کالم نگارممتاز ماہرین تعلیم اورمعروف شاعر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain