پروفیسر ساجد میر
ستمبر 1932 کو سعودی عرب کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جب سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے نجدو حجاز کے تمام علاقوں پر فتح و نصرت کا پرچم لہرایا اور عرب کے اس خطے کا نام ”المملک العربی السعودیہ“ رکھا گیا۔ اس دن سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں اہم تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ دنیا بھر اور عالم اسلام میں وہ واحد ملک ہے جس میں دین اور سیاست دونوں یکجا ہیں۔ اس بنا پر اس کی سیاست کا تعلق دعوت اسلام سے بھی ہے ملک عبدالعزیز نے جب سعودی عرب کو متحد کیا تو اس کی سیاست کی بنیاد دین پر رکھی۔ پھر تجرباتی اور واقعاتی طور پر سعودی عرب نے دور حاضر میں یہ ثابت کر دیا کہ سیاسی اور معاشرتی میدان میں وہ دین ودعوت کی بنیاد پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
آل سعود نے شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب کی رہنمائی میں دعوت حق کا پرچم بلند کیا۔ظلمت شب کے پرستاروں نے گرد وپیش سے یلغار کر دی اور چاہا کہ اس ابھرتی ہوئی روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیں۔ مگر اس کی راہ کوئی نہ روک سکا جو راہ میں آیا زوال وفنا سے دو چار ہو کر ہمیشہ کے لیے پردہء گمنامی میں چلا گیا۔یہ روشنی کیا تھی؟ تجدید دین اور احیائے اسلام کی ایک انقلابی دعوت تھی۔ عزیمت واستقامت کی بنیادوں پر دعوت جسے نجد کے ریگزاروں میں پلے ہوئے ایک فولادی عزائم کے مالک انسان محمد بن عبدالوہاب نے برپا کیا تھا جو اس دعوت کے خاکوں میں اپنے خون جگر سے رنگ بھرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔سعودی حکومت اور امام محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کا باہمی رابطہ حقیقت میں اللہ تعالی کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے سعودی حکومت کو اس دور میں یہ اعزاز بخشا کہ حکومت کا قیام اور تجدید دین ایک ساتھ عمل میں آئے۔ یہ اعزاز اللہ تعالی نے اس مقدس سرزمین کو اس وقت بخشا جب مکہ المکرمہ میں خانہ کعبہ کو تعمیر کیا گیا اور جب مدینہ منورہ میں نبی اکرمﷺنے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔
سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی ہمارے خراجِ تحسین و عقیدت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔
آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الٰہی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔حکومت نے ہمیشہ اپنی و جاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد، ملک میں نفاذ قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔
جب ہم شاہ سلمان کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں ایک انتہائی تجربہ کار عام روش سے ہٹ کر ایک عبقری شخصیت نظر آتے ہیں۔
شاہ سلمان ذاتی طور پر ایک دین پسند،بلند اخلاق، انصاف پرور، صاحب علم اور علم وعلماء دوست شخص ہیں، مطالعے کے شوقین اور فن تاریخ وادب کے دلدادہ ہیں، علم انساب اورتاریخ سے ان کی ذاتی دلچسپی معروف ہے، اور اسی وجہ سے اقوام عالم پر ان کی گہری نظر ہے، ایک حاکم یا سیاست دان کے لئے علم تاریخ کی کتنی افادیت و ضرورت ہے یہ کسی صاحب علم وبصیرت سے مخفی نہیں۔
اپنی بادشاہت کے پہلے ہی دن انہوں نے جو سب سے پہلا خطاب کیا اس میں یہ بات واضح کردی کہ سعودی عرب اپنے اصل بنیاد سے کسی قیمت پر نہ ہٹے گا، اور نہ ہی اپنے ان اصولوں سے دستبردار ہوگاجن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔مزید کہا: ہم اللہ رب العزت کی نصرت ومدد کے سہارے اپنے اصول ومنہج پر قائم رہیں گے، اور اس سلطنت کے بانی والد محترم شاہ عبد العزیز کے زمانے سے جو منہج حیات وسیاست چلی آرہی ہے نہ صرف اس کی پاسداری کریں گے بلکہ اس سے کسی صورت رو گردانی نہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کے قانون کی بالا دستی قائم رکھیں گے۔
سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے کے لئے نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے حکمرانوں کی پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔وہ پاکستان کو اپنا بھائی اور دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے توپورا مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا اس نازک اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب تھا۔ پاکستان کو ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل فراہم کرنے والے شاہ عبد اللہ مرحوم ہی تھے جنہوں نے دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اعلانیہ، بلا ڈر و خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادائیگی پر تیل کی فراہمی تقریبا مفت میں تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے تختِ شاہی پر براجمان ہوتے ہی کہا تھا کہ مملکت کی سیکورٹی،اس کے استحکام سلطنت کو تمام برائیوں سے محفوظ بنانے کے لیے سعودی عوام میری مدد کریں۔ یہ بیان ان کے عزائم اور مستقبل کے رویے کی غمازی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف سعودی عرب کو مستحکم بنیادوں پر آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں بلکہ شاہ عبد اللہ کے پیروکار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ شاہ سلمان نیک اورصالحِ انسان ہیں۔ ان کے صالح ہونے اورجرات کے اظہار کے لیے یہ کافی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی قوت امریکہ کے سابق صدر اوباما کو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے تقریب سے اٹھ کر چلے جانا، پھر ان کے ہمراہ تقریب میں موجود تمام سعودیوں کا شاہ کے ساتھ اٹھ کر چلے جاناشاہ سلمان کی دین سے گہری وابستگی اور تقویٰ کا مظہر ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے حالیہ دورے میں اقتصادی شعبے میں سعودی پاکستان سٹریٹجک تعلقات میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی جب سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں سٹریٹجک بندرگاہ شہر گوادر میں 10 ارب ڈالر مالیت کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل تھا۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا یہ امید افزا لمحہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں موافق تبدیلی کے درمیان پیش آ رہا ہے۔خاص طور پر اس طرح کی سرمایہ کاری کے لیے گوادر کے انتخاب نے وسیع تر علاقائی نیٹ ورک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں سعودی دلچسپی کا اشارہ دیا ہے۔بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی غیر معمولی پوزیشن اور تاریخی سعودی پاکستان اتحاد کی مخالف بین الاقوامی قوتیں اس حقیقت کو ہضم نہیں کر سکیں کہ دونوں برادر ممالک اپنے تعلقات کو ایک مختلف سطح پر لے جا رہے ہیں جہاں مستقبل میں ان کے مفادات جغرافیائی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہو سکتے ہیں۔
دونوں ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے بھی قریبی تعاون کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ بڑھتا حالیہ ربط و تعاون اسلامی بنیادوں پر قائم انہی برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
(مرکزی امیرجمعیت اہلحدیث ہیں)
٭……٭……٭