تازہ تر ین

سی پیک کو درپیش چیلنجز

ملک منظور احمد
پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی ہو ئی آئی ہے،اور قوم کو لگنے لگا تھا کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں لیکن پھر اچانک 2013ء میں چین کی جانب سے پاکستان کو ایک پیغام ملا کہ ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔اور یہ تحفہ چین کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کی صورت میں دیا گیا۔گو کہ اس دور میں پاکستان میں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی لیکن اس منصوبے کا کریڈٹ سابق صدر آصف زرداری بھی لیتے ہیں۔
بہر حال یہ منصوبہ با قاعدہ طور پر 2015ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے بعد شروع ہوا اور سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا سٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سٹرکیں بنیں مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ بہر حال چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔داسو،گوادر اور کوئٹہ میں حملے ہوئے اور ان حملوں میں بد قسمتی سے چینی شہری بھی نشانہ بن گئے۔اور چین نے پاکستان سے اس حوالے سے شکوے کا اظہار بھی کیا گوکہ پاکستان نے پہلے سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے فوج کے اضافی دستے تعینات کر رکھے ہیں لیکن ان حملوں کے بعد چینی شہریوں اور خاص طور پر سی پیک پر کام کرنے والے ورکرز کی سیکورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سی پیک کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں منفی خبریں بھی ایک معمول بنتی جا ری تھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات لیے جا رہے ہیں۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز بننے ہیں جن میں برآمدی صنعتیں لگائی جانی ہیں۔اور حکومت پاکستان کا منصوبہ یہ ہے کہ ان اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی کمی کا مسئلہ جس کے باعث پاکستان کو بار بار آئی ایم کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے کو ختم کیا ہے اور مستقبل میں ایک بہتر معیشت کی بنیاد رکھی جائے۔اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تیز تر ہوتا گیا پاکستان میں یکے بعد دیگر سی پیک پر بھی حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی اور پاکستان نے بھی کہا کہ افغان سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں چینی شہریوں پر یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید طالبان ان حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان طالبان بر ملا نہ صرف چین کو اپنا دوست قرار دے چکے ہیں بلکہ چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دے رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود راء اور این ڈی ایس ان حملوں میں ملوث تھیں۔لیکن جہاں پر بہت سا پرا پیگنڈا موجود ہے وہاں پر یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ چینی کمپنیوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے عد م ادائیگی کی شکایات بھی کی ہیں جن پر پاکستان کی حکومت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ جلد یہ معاملہ کلیئر کر دیا جائے گا۔اور ابھی گزشہ کل ہی سی پیک پر پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو روکنے کی تمام کوششوں کا سد باب کیا جائے گا۔اور کوئی قوت سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔یہ اعلا میہ نہایت ہی خوش آئند اور ان سازی عنا صر کو سخت جواب ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین ایک پیج پر ہیں کسی صورت بھی اپنے مشترکہ مفادات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔بہر ال سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقع قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain