کرنل (ر) عادل اختر
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حماقتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کی گنتی ممکن نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی غلطیوں کی سزا عوام کو ملتی ہے، سیاسی جماعتوں کے نتیجے میں 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا۔
1998ء میں نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے اپنے سر پر وہ بوجھ دھر لیا جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ تھی۔ ملک کے وزیراعظم کو ذہنی طور پر بہت ترقی یافتہ ہونا چاہئے۔ سیاسی الفاظ کی لغت پر کامل عبور حاصل ہو۔ اس میں دوربینی کی اعلیٰ صلاحیت ہو۔ نوازشریف ان صلاحیتوں سے محروم تھے۔ وہ دولت مند آدمی تھے۔ سمجھتے تھے کہ دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔
جب نوازشریف وزیراعظم بنے تو جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے۔ انہوں نے کسی جگہ اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ پاکستان کے حالات کے تناظر میں ایک نیشنل سیکورٹی کونسل ہونی چاہئے۔ نوازشریف کو ان کی بات ناگوار گزری۔ انہوں نے جہانگیر کرامت کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا…… اگر ان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ جنرل کو بلا کر ان سے تبادلہ خیالات کر لیتے اور انہیں قائل کر لیتے۔
جنرل جہانگیر کی جگہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ اگر انہیں علم غیب ہوتا تو جان لیتے کہ وہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہے ہیں۔
نوازشریف کے زمانے میں ایک بڑا مسئلہ سامنے آیا۔ ایٹمی دھماکہ کریں یا نہ کریں۔ نوازشریف دھماکے کے حق میں نہ تھے مگر انہوں نے بادل نحواستہ اس کی منظوری دے دی۔ یوں پاکستان اعلانیہ ایٹمی طاقت بن گیا۔ دنیا کو بڑی تشویش ہوئی۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت کے مالک بن گئے اور دونوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔
آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سرحد کو لائن آف کنٹرول کہتے ہیں، وہاں ایک گاؤں کارگل ہے جہاں سے ایک سڑک گزرتی ہے۔ اس سڑک پر بھارت کی سپلائی لائن ہے جو سیاچن اور لداخ کو فوجی سامان پہنچاتی ہے۔ کارگل کے اطراف بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کی اونچائی پندرہ ہزار سے اٹھارہ ہزار فٹ ہے۔ یہاں کوئی آبادی نہیں ہے، سردی بہت سخت ہوتی ہے۔ گرمیوں کے زمانے میں بھارتی یہاں بھارتی فوجی چوکیاں قائم کر لیتے اور سردیوں کے موسم میں چوکیاں خالی کرکے نیچے اتر آتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے سوچا۔ کیوں نہ سردیوں کے موسم میں ان چوکیوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ بھارت کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ اس طرح بھارت گھٹنوں کے بل گر پڑے گا اور پاکستان کی شرائط پر صلح کرے گا۔ جنرل پرویز مشرف ایک حریص انسان تھے۔ ان کا فرض تھا کہ اس مسئلے پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیتے تاکہ اس مسئلے پر ہر پہلو سے غور کیا جا سکے۔
پہلا سوال تھا کہ بھارت کا ردعمل کیا ہوگا۔
دوسرا یہ کہ بین الاقوامی سطح پر اس کے مضمرات کیا ہونگے۔ کابینہ میں ایک ڈیفنس کمیٹی ہوتی ہے جو ایسے معاملات پر غور کرتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے بڑی رازداری برتی۔ کسی کو منصوبے کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اور سردیوں کے زمانے میں خالی پڑی چوکیوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں انہوں نے گلگت کی فوج جسے ناردرن لائٹ انفنٹری کہتے ہیں۔ استعمال کی…… گلگت کی فوج میں سپاہی گلگت کے اور افسر پاکستان آرمی کے ہوتے ہیں۔
ادھر نوازشریف بھارت سے تعلقات خوشگوار بنانے کے خواہش مند تھے۔ ان کی دعوت پر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور ایک معاہدہ بھی ہو گیا۔ یہ فروری 98ء کا زمانہ تھا۔
جب برف پگھلی تو بھارتی فوج کو شک ہوا کہ پہاڑوں پر کچھ غیر لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد بھارتی فوج کو تصدیق ہو گئی کہ یہ لوگ پاکستانی فوجی ہیں …… جنرل پرویز نے کہا کہ یہ پاکستانی فوجی نہیں بلکہ مجاہدین آزادی ہیں۔ بھارت نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کر دیا۔ ایک سپاہی کے مقابلے میں دس سپاہی کھڑے کر دیئے۔ بھارت کے پاس سوئیڈن کی بنی ہوئی توپ بوفر تھی۔ بھارت نے سڑک پر سینکڑوں توپیں کھڑی کر دیں۔ ان توپوں کی مار تیس کلومیٹر تھی۔ توپوں نے دن رات آگ برسانا شروع کر دی۔ بھارتی ایئرفورس بھی بمباری کرنے لگی۔ پاکستانی مجاہدوں کے پاس مقابلہ کرنے کے لئے ہلکے ہتھیار تھے۔ کمک آنا بند ہو گئی۔ رسد پہنچنے کے راستے بھی بند ہو گئے۔ مجاہدین خطرات میں گھر گئے۔ بھارتی انفنٹری تین طرف سے پہاڑوں پر حملہ کرتی۔ اس سلسلے میں بھارت کے بے شمار جوان مارے گئے۔ پاکستانی افواج میں بھی بہت زیادہ شہادتیں ہوئیں جب بھارتی فوجی کسی چوکی پر پہنچتے تو وہاں یا تو لاشیں پڑی ملتیں یا زخمی سپاہی۔ پاکستانی سپاہیوں نے بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ کیوں نہ کرتے۔ ان کے اسلاف نے بدر اور کربلا میں معجزات دکھائے تھے۔ یہ زمانہ تھا۔ جون۔ جولائی 99ء کا…… جنرل پرویز مشرف کے اندازے غلط ثابت ہو چکے تھے۔
بھارت نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
بین الاقوامی برادری خاموش نہ رہی، اس نے پاکستان کو جارح قرار دیا۔
نوازشریف اس صورتحال سے بہت پریشان تھے۔ ان کے اور جنرل مشرف کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ 3جولائی کو نوازشریف نے امریکہ کے صدر کلنٹن سے ملاقات کی درخواست کی۔ کلنٹن نے کہا…… پہلے کارگل سے اپنی فوجیں واپس بلاؤ…… اس شرط پر 4جولائی کو ملاقات طے ہو گئی۔
بین الاقوامی صورتحال یہ تھی کہ آٹھ بڑے ممالک (G-8) نے پاکستان سے فوجیں نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ بیک چینل ڈپلومیسی ناکام ہو گئی۔ چین چپ رہا۔ امریکہ اور فرانس نے بھی پاکستان سے فوجیں نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔
پاکستان کے کئی سرکردہ رہنما بھی پرویز مشرف کی پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے۔ بھارت میں الیکشن ہونے والے تھے۔ واجپائی نے پاکستان کے ساتھ رویہ سخت کرلیا۔ کارگل کو اپنی فتح قرار دیا تاکہ الیکشن میں زیادہ ووٹ لے سکیں۔
نوازشریف 4جولائی کی صبح امریکہ پہنچے۔ امریکہ کی ایوان نمائندگان کمیٹی نے پہلے ہی پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کر لی تھی۔ حالات بہت ناسازگار تھے۔ ان حالات میں یکطرفہ مذاکرات ہوئے۔ صدر کلنٹن نے دو مطالبات رکھے۔
(1) کارگل سے اپنی فوجیں نکالو۔
(2) اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کرو۔
نوازشریف کے پاس مطالبات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔ جب نوازشریف وطن واپس آئے تو سردمہری یا مخالفانہ نعروں کے ساتھ ان کا استقبال ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس مہم جوئی کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے لئے شریفانہ راستہ یہ تھا کہ وہ ذمہ داری قبول کرتے اور استعفیٰ دے دیتے۔
نوازشریف بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کرنے کی لیاقت سے محروم تھے، باریک سفارتی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے مخالفین یعنی واجپائی اور جسونت سنگھ سفارتی زبان پر قدرت رکھتے تھے۔
قارئین…… باور کر لیجئے۔ دو ممالک میں جھگڑا ہو تو دنیا حق اور ناحق نہیں دیکھتی۔ اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ بھارت بڑا ملک ہے۔ ہر ملک بھارت کی دوستی پسند کرتا ہے۔ آج اگر پاکستان کا خزانہ اور فوج بھارت سے ڈبل ہو جائے تو بھارت کی نحوت اور غرور خاک میں مل جائیں۔
بڑے سیاسی لیڈروں سے کردار کی مضبوطی کی امید کی جاتی ہے…… نوازشریف اور پرویز مشرف دونوں میں سے کسی میں اعلیٰ ظرفی نہ تھی۔ جنرل پرویز مشرف کا فرض تھا کہ وہ اپنے منصوبے پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیتے۔ خود منصوبہ شروع نہ کرتے…… منصوبے کی ناکامی پر استعفیٰ دے دیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا……
نوازشریف منصوبے سے بے خبر رہے…… یہ ان کی غلطی اور کمزوری تھی۔ نوازشریف میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔ انہوں نے زبردستی وہ بوجھ اٹھا لیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی۔ مشکل کے وقت ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ قدرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں۔ آج دونوں اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دونوں، مغضوب، معتوب اور مفرور ہیں۔
دیار غیر میں پڑے ہیں۔ بیماریوں سے عاجز ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ پرویزمشرف اور میاں نواز شریف دونوں ہم قسمت ہیں۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭