تازہ تر ین

وژن کافقدان اورہمارے قومی ہیروز

وزیر احمد جوگیزئی
پاکستان کا ایک عجیب المیہ ہے اور یہ المیہ شروع سے ہی چلا آرہا ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کو زندگی میں زیرو کر دیتے ہیں،ہمارے قومی ہیروز دوران زندگی زیرو ہو تے تو نہیں ہیں لیکن اس کو ہم خود ان کو زبر دستی زیرو کر دیتے ہیں بلکہ زیرو کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم ہر طرح سے ایک بہت ہی بڑے انسان تھے۔جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدہ
بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ نہ ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کو زندگی میں جائز مقام دلا سکے اور نہ ہی ان کی رحلت پر ان کو وہ عزت دے سکے جس کے ڈاکٹر صاحب یقینی طور پر حقدار تھے۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر میں کہاں سے بات شروع کروں ایک نہایت ہی نفیس انسان تھے اپنے شعبے کے ماہر تھے اور ذہانت اور فتانت ان میں کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی۔ڈاکٹر صاحب ایک لا جواب سائنٹیفک لیڈر تھے جنہوں نے پاکستان انجینئرنگ کے شعبے کی رہنمائی کی خاص طو رپر اپنے شعبے میں چن چن کر ہزاروں قابل لوگوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔اور اسی ٹیم نے ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں پاکستان کو ایک جوہری قوت بھی بنا یا۔پاکستان نے ایٹمی بم تو بنا لیا تھا لیکن اس کے بعد کی مشکلا ت کے بارے میں کم ہی لو گ جانتے ہیں کہ ایٹم بم کی ڈیلوری کے لیے سسٹم چاہیے تھا ڈاکٹر صاحب ہی ایک بار پھر سامنے آئے اور انھوں نے اس حوالے سے الگ محکمہ بنایا۔اس سے متعلقہ اور بہت سارے اداروں کی بنیاد بھی رکھی۔ڈاکٹر صاحب کے کریڈیٹ پر جی آئی کے جیسے اداروں کی بنیاد رکھنا شامل ہے۔جی آئی کے جیسا ادارہ قائم کرکے ایک مثال قائم کر دی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی ملک میں بھی اسی ما ڈل کو اپناتے ہوئے ادارے قائم کیے جا ئیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ہم نے بطور قوم ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ملک کے لیے ان کی بیش بہا اور نا قابل فراموش خدمات کے باوجود ان کو پابند سلاسل کیا، لیکن ان کی آزادی کے لیے نہ ہی عوام ان کی کو ئی مدد کر سکے اور نہ ہی عدالت۔ہمارے قومی ہیرو اپنے آخری وقت بھی اپنی آزادی کے لیے جد و جہد کرتے رہے۔ اس کے بر عکس اگر ہم ہندوستان پر نظر ڈالیں تو انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کے باوجود اپنے ایٹمی سائنس دان کو ہر قسم کی عزت دی،اور یہ ہمارے لیے ایک مثال ہو نی چاہیے۔ ہماری ناکامی یہ بھی رہی کہ ہم دیگر شعبوں میں ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ڈاکٹر صاحب کو خدا نے جو صلاحیتیں دیں تھیں ان سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پاکستان کے کئی شعبوں میں انقلاب آسکتا تھا،لیکن ہم اس میں ناکام رہے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین درجات سے نوازے۔اب میں کچھ بات ملک کے معاشی حالات پر بھی کرنا چاہوں گا۔محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کسی صورت بھی ملک کے معاشی حالات کو سنبھال نہیں پا رہی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو عوام کے حالات کا ادراک ہی نہیں ہے اور ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے نا خن لینے کی ضرورت ہے۔آج کل کے دور میں ملک کا دفاع بھی براہ راست معیشت کے ساتھ جڑا ہو ا ہے اگر کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں ہے تو اس کا دفاع بھی مضبوط تصور نہیں کیا جاتا ہے چاہے اس ملک کے پاس کتنی ہی بڑی فوج ہو اور ہتھیار کتنی ہی بڑی تعداد میں موجود کیوں نہ ہو ں۔
ہندوستان نے حال ہی میں اپنی ایک کرونا ویکسین بنا لی ہے اور انگلستان سے بھی اس ویکسین کو منوا لیا ہے۔آخر ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ صرف اسی لیے ممکن ہو ا کہ ہندوستان نے اپنی ویکسین تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں انگلینڈ کے ساتھ ان کے تجارتی با ئیکاٹ کی دھمکی دی اور کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہت زیادہ ہے اور بائیکاٹ کی صورت میں انگریز کا نقصان زیادہ تھا اسی لیے انھوں نے ہندوستان کی اس مقامی ویکسین کو نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اور نہ صرف یہ بلکہ ہندوستان میں کرونا کی شرح پاکستان سمیت کئی ممالک سے زیادہ ہونے کے باوجود ان پر سے آمد و رفت کی بھی پابندیاں ختم کر دی گئیں ہیں۔ اس سے ہمیں موجودہ دور میں معیشت کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم معاشی طو ر پر کمزور ہیں بلکہ بہت کمزور ہیں اور اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر دور رس وژن نہیں رکھتے ہیں۔اور صرف ڈنگ ٹا پا ؤ پالیساں لے کر چلتے ہیں جس کا ملک کو نقصان ہو تا ہے۔اس طرح ملک کو لے کر چلنے سے ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔
ایک زرعی ملک کے ہوتے ہوئے ہمیں گندم سمیت دیگر بنیادی اجناس میں خود کفیل ہونا چاہیے تھا لیکن ہم گندم بھی باہر سے منگوا رہے ہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت آ ج تک زراعت کو درست انداز میں سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔اگر صرف پنجاب کی گندم درست انداز میں پروکیور کر لی جائے تو پورے ملک کے غلے کا بندوبست ہو جائے گا۔لیکن ہماری حکومت اس حوالے سے بھی غفلت کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ہمارے ملک کی برآمدات بڑھانے کے لیے کئی ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ دے کر کارآمد کیا جاسکتا ہے اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں نہیں کیا گیا ہے،ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہماری امپورٹ ہماری ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی کی وجہ سے معیشت اور روپیہ کمزور ہے اور جب تک ہم تجارت اور انڈسٹری کو پاکستان سپیسفک نہیں بناتے تب تک ہماری معیشت کسی صورت میں بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔اگر تعلیم کے شعبے کی بات کی جائے تو تعلیم کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔نجی شعبہ ہر طرح سے حاوی ہو چکا ہے۔
ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن سرکاری شعبے میں تعلیم میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت کو ئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اکیلے ملک کو ان حالات سے نکال سکے۔لہذا ہمیں ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے۔الیکشن کروانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا میرے خیال میں ملک میں 15سال کے لیے ایک ٹیکنو کریٹس کی حکومت آنی چاہیے اور ان ٹیکنو کریٹس میں اکثریت ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی بنائی ہو ئی ٹیم میں سے ہونی چاہیے۔یہی ایک طریقہ ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ صنعت اور زراعت میں بھی ترقی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر جس قسم کے انتخابات کروانے کا پلان بن رہا ہے اس میں تو سوائے دھاندلی کے اور کچھ نہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ملک میں جہاں پر ہر قسم کے قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن ان قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے ایک وژن کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 43فیصد ہے اور اس 43فیصد میں 60فیصد پہاڑ ہیں 10فیصد ریگستان ہے اور 15فیصد زمین ایسی ہے جو کہ قابل کاشت ہے۔لیکن کبھی ہمارے پالیسی سازوں نے نہیں سوچا کہ جو 60فیصد پہاڑی زمین ہے جہاں پر کچھ نہ کچھ بارش بھی ہوتی ہے اس کو قابل استعمال بنایا جائے تو ملک کا بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔اگر ملک میں موجود معدنی وسائل کو درست طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک ایک اقتصادی طاقت نہ بن سکے،لیکن پاکستان کے ایک اقتصادی طاقت بننے کے راستے میں رکاوٹ ایک دور س جامع وژن کی بجائے کل کی فکر ہے اور جب تک کل کی فکر زیادہ حاوی رہے گی ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain