تازہ تر ین

مجھے انصاف نہیں ملا

خیر محمد بدھ
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی وفات سے قبل ایک خط میں یہ شکایت کی تھی کہ انہیں اپنی قوم سے انصاف نہیں ملا۔ اس طرح گزشتہ روز الجزیرہ ٹی وی چینل پر صبح کی نشریات میں شیخوپورہ سے مظہر فاروق نامی شخص کا انٹرویو نشر ہواجس میں اس نے بتایا کہ وہ 21 سال موت کی کال کوٹھڑی میں بند رہا ہے۔ ہر روز آپ کچہری میں جائیں تو بچے، بوڑھے، جوان سب ہی یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ وہ سالہاسال سے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک حصول انصاف میں انہیں کامیابی نہ ملی ہے۔ لیبرکوٹ این آئی آر سی میں جا کر دیکھیں مزدور شکایت کریں گے کہ وہ عرصہ دراز سے انصاف کے حصول کیلئے چکر لگا رہے ہیں۔ میرے اپنے ضلع میں ایک سرمایہ دار نے فیکٹری کو غیر قانونی طور پر بند کر دیاحالانکہ لیبر قانون کے مطابق فیکٹری کو مکمل بند کرنے کیلئے لیبر کورٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس طاقتور شخص نے بلااجازت کارخانہ بند کرکے سینکڑوں مزدوروں کو بیروزگار کر دیا اور آج تین سال ہو گئے ہیں ابھی تک کوئی فیصلہ نہ ہوا ہے۔ آپ ریونیو کی عدالتوں میں جائیں زمین کے تنازع پر قبضہ اور تقسیم کے معاملے پر وراثت اور حد برداری کے مسئلے پر لاکھوں لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔گزشتہ دنوں مظفرگڑھ میں ریونیو عدالت میں ایک بزرگ نے رو کر کہا کہ وہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہے کافی عرصے سے ناجائز قبضہ چھڑوانے کیلئے مقدمہ بازی کا سامنا کر رہا ہے لیکن اسے انصاف نہیں مل رہا، یہ کہہ کروہ عدالت میں گرگیا اور انتقال کر گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی بین الاقوامی شخصیات بھی انصاف نہ ملنے کا شکوہ کریں تو پھر نیچے کیا صورتحال ہوگی۔
انصاف نہ ملنے کا یہ مسئلہ صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے سماج میں سبھی شراکت دار کسی نہ کسی طرح سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مریض یہ شکایت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں علاج کرنے کے بجائے اپنے ذاتی کلینک پر ریفرکرتے ہیں اور ادویات بھی بازار سے منگواتے ہیں۔ والدین شکوہ کرتے ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ فیس لی جاتی ہے سہولیات کم ہیں جبکہ محکمہ تعلیم سے شکایت کی جائے تو پروا نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں سے ملے ہوئے ہیں۔ہر جگہ شہری شکایت کرتے ہیں کہ پینے کا صاف پانی نہیں ملتا جو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگے ہوئے ہیں وہاں فلٹر تبدیل نہیں ہوتے۔ پانی میں آسینک زیادہ ہوتا ہے۔ جب میونسپل اداروں سے بات کی جائے تو پرواہ نہیں کرتے۔ اس طرح نالی گلیوں کی صفائی اور سیوریج کیلئے جب شکایت کی جائے تو وہ کوئی داد رسی نہیں ہوتی۔
وہ ادارے جن کے پاس کروڑوں روپے کے فنڈز ہیں، وسائل ہیں، گاڑیاں ہیں، ایئرکنڈیشن دفاتر ہیں،ٹھاٹ بھاٹ سے رہتے ہیں انکے کام اور خدمات Service Delivery کی یہ حالت ہے کہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ اگر ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں، سول عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو دیکھا جائے تو ہر ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری محکمہ جات ریو نیو، بلڈنگ، آبپاشی، لوکل کونسل وغیرہ کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا یہ ان اداروں کی نااہلی نہیں ہے کہ جو کام انکا ہے وہ نہیں کرتے اور لوگوں کو عدالتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح عدالتوں میں موجود درخواستوں میں اکثریت درخواستیں سرکاری محکمہ جات سے متعلق ہوتیں ہیں جن میں پولیس کا محکمہ سرفہرست ہے۔ جب لوگوں کو مقامی سطح پر انصاف نہیں ملتا تو پھر اعلیٰ عدالتوں میں اپنے حق کے حصول کیلئے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دیتے ہیں۔ جس سے عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور اخراجات بھی آتے ہیں۔
چند روز پہلے عدالت عالیہ میں ایک کام کے سلسلے میں جانا ہوا تو دوران سماعت ایک کیس میں یہ پتہ چلا کہ پولیس نے چالان پراسیکیوشن برانچ میں جمع کرادیا ہے اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ چالان متعلقہ عدالت میں نہ بھیجا گیا ہے۔ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں اور خود احتسابی کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں سے اخلاقیات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ شخص اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ ہمارے معاشرے سے انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ گھر وں اور فیملی میں انصاف نہیں ہے۔ اولاد اپنے والدین کی نافرمانی پر تل گئی ہے۔یہاں تک کہ اطاعت والدین کا قانون بنانا نافذ ہوا ہے۔خاوند اپنی بیوی اور بچوں سے انصاف نہیں کرتے اس لیے فیملی کورٹس میں مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
زمیندار اپنے مزارع اور مستاجر سے انصاف نہیں کرتا، سرمایہ دار اپنے مزدور کو اس کا حق نہیں دیتا۔ ملاوٹ، کم تولنا، دو نمبری عام ہے۔ مصنوعی مہنگائی کر کے صارفین کا استحصال ہورہا ہے۔ سرکاری محکمہ جات،پولیس، ریونیو، لوکل گورنمنٹ میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے نا انصافی ہے واپڈا، بجلی،سوئی گیس اپنے لائن لاسز صارفین پر ڈال کر ناانصافی کر رہے ہیں۔ سیاست دان عوام کے مسائل اور شکایت پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر گالم گلوچ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے ووٹرز سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ووٹ لینے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اور میرٹ،قانون اور سماجی انصاف کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج تک ممبران پارلیمنٹ نے رشوت، بدعنوانی اور ناانصافی پر سخت قانون نہ بنایا ہے حالانکہ ان کا کام ہی قانون سازی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گھر کا کوئی ایک آدمی غلط ہو تو گھر والے ا سے سمجھاتے ہیں لیکن جب سارے گھر والے ہی غلط ہوں تو پھر انہیں کون سمجھائے گا۔ اس وقت صورتحال بہت تشویشناک ہے، اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جب کسی معاشرے سے اخلاقیات ختم ہو جائیں تو پھر انصاف کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ناانصافی سے زیادہ کوئی اور ظلم نہیں ہے۔ ہمیں اپنے اخلاقی نظام کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے ور نہ نانصافی کا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain