تازہ تر ین

قطر سرمایہ کاری،لندن جائیدادکیسے بنی ,اب بتاناہوگا

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی، مانیٹرنگ ڈیسک) پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ جلا وطنی کے بعد انہوں نے جدہ میں فیکٹری لگائی کیونکہ مشرف دور میں ان کے تمام کاروبار کو بند کر دیا گیا تھا۔ اگر یہی بات ہے تو فیکٹری لگانے کے پیسے کہاں سے آئے؟ا±نھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے مالیاتی مشیر نے کہا تھا اس بارے میں تمام ثبوت موجود ہیں اور ان کا ریکارڈ وزیراعظم کے وکیل کے پاس ہے لیکن عدالت میں اس ضمن میں کچھ بھی جمع نہیں کروایا گیا۔ پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کے وکلا نے سپریم کورٹ کے روبرو تحریری عدالتی سوالات کے جواب جمع کرا دیئے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر وزیر اعظم کے وکلا کی جانب سے عدالتی سوالوں کا جواب جمع کرادیا گیا جس میں بتایا گیا کہ نوازشریف 25 اپریل 1981 سے 28 فروری 1985 تک پنجاب کے وزیر خزانہ ، 19 اپریل 1985 سے 30 مئی 1988 تک وزیر اعلیٰ پنجاب جبکہ 31 مئی 1988 سے 2 دسمبر 1988 تک نگران وزیر اعلیٰ رہے، نوازشریف6 نومبر 1990 سے 18 اپریل 1993 تک پہلی بار جب کہ دوسری بار 17 فروری 1997 سے 12 اکتوبر 1999 تک وزیر اعظم رہے، 12 اکتوبر1999 کے مارشل لاء کے بعد نوازشریف کو ہٹایا گیا اور 10 دسمبر 2000ء کو انہیں جلا وطن کیا گیا، نوازشریف تیسری مرتبہ 5 جون کو وزیراعظم بنے اور تاحال عہدے پر فائز ہیں۔سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے بارے میں والد کچھ اور اولاد کچھ اور کہتی رہی، قطر میں سرمایہ کاری سے لگتا ہے نئی جائیدادیں خریدی گئیں، قطری خط مکمل طور پر فراڈ ہے، 2016 میں قطری شہزادہ 1980 کی یاد تازہ کر رہا ہے، وزیراعظم کے کسی بیان میں قطری خط کا کوئی ذکر نہیں، ساری جائیداد دادا سے ایک پوتے کو منتقل نہیں ہو سکتی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات نوٹ کر لی ہے کہ رقم منتقلی کا ریکارڈ نہیں لیکن آپ کویہ بھی بتانا ہوگا کہ سرمایہ کاری قطر اور جائیداد لندن میں کیسی بنی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ ایسا لگتا ہے بارہ ملین درہم دو عشروں تک خرچ نہیں ہوئے، گلف اسٹیل کی فروخت کی رقم وزیر اعظم کے بینک اکاو¿نٹ میں رہی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمیں مشکل ہو گی۔جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کا بیان سنی سنائی باتیں ہیں تو اسے بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط ہماری نہیں وزیر اعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، خط کو کارروائی سے نکال پھینکا جائے۔ نعیم بخاری کی استدعا پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نکال پھینکیں کیونکہ وزیر اعظم کے بچوں کا انحصار اس پر ہے، یہ خط وزیراعظم کے بچوں کی تائید میں لکھا گیا ہے۔ اگر خط نکال دیا تو بچوں کے مو¿قف کی حیثیت کیا ہو گی، نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادوں کو نکال دیں تو ساری جائیداد شریف فیملی کی ہے، فلیٹ خریدتے وقت فلیٹ شریف فیملی کے تھے۔ بچوں کی جانب سے دیا گیا مو¿قف وزیر اعظم کے بیان کے متضاد ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ التوفیق کیس میں 34ملین ڈالر کیسے دیئے گئے یہ پیسے الثانی خاندان کو ادا کرنے چاہئے تھے جائیداد ان کی تھی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے قطری خط پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قطری خط اور وزیراعظم کے بیانات میں تضاد ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ قطری خط وزیراعظم کے بچوں کے مو¿قف کی تائید میں لکھا گیا خط نکال دیا تو وزیراعظم کے بچوں کے مو¿قف کی حیثیت کیا ہوگی۔ نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ بچوں کی جانب سے لیا گیا موقف بچوں کے بیان سے متضاد ہے۔ جسٹس عظمت نے ایک بار کہا تھا کہ اخبار میں پکوڑے بکتے ہیں کئی بار اخبار کی خبر پر نوٹس اور کارروائی کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے تو قانونی طور پر مو¿قف کی تردید کے لئے بھی استعمال نہیں ہوسکتا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ صرف الزام کافی نہیں سماعت کی جاسکتی ہے حمتی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہم اور آپ سب سچ جاننا چاہتے ہیں۔ نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ تہہ در تہہ چھپائی گئی جائیدادوں کا ریکارڈ نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ قرض ادائیگی کا شریف خاندان کے وکلاءبتائیں گے عدالتی حکم پر 34ملین ڈالر کا قرض ادا کیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریکارڈ ہے کہ حسین نواز کب تک طالب علم رہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کے ڈائریکٹر میں میاں شریف‘ نواز شریف‘ شہباز شریف شامل ہیں جبکہ حمزہ شہباز ‘ شمیم اختر اور مریم نواز بھی ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ مریم نواز وزیراعظم کی زیرکفالت تھیں اور ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلے زیر کفالت ہونے کی تعریف بھی کرنا ہو گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو کوئی عجلت نہیں تمام فریقین کو دلائل دینے کا موقع دینے کی کوشش کی جائے گی کہ سماعت کے حوالے سے تشنگی نہ رہے۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ کل سماعت نہ کی جائے پیر کو سماعت کی جائے جسے عدالت کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت (آج) جمعہ تک ملتوی کر دی۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain