لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میڈیا پر صرف سیاسی ایشوز پر ہی پروگرامز نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ناقص خوراک اور گندے پانی جیسے بنیادی مسائل پر بھی پروگرامز کئے جانے چاہئیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کھائیں کیا نہ کھائیں۔ نت نئی بیماریاں اور ہسپتالوں میں رش کی بڑی وجہ تو گندا پانی اور خوراک ہے۔ بیرونی ممالک میں تو لوگ اب گھروں میں سبزیاں پھل اگا رہے ہیں تاکہ خالص خوراک حاصل ہو۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام خوش آئند ہے لیکن ہمارے یہاں سرکاری اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ سارا سٹرکچر 99 فیصد تک تباہ و برباد ہو چکا ہے کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ان حالات میں کیسے یہ تصور کر لیا جائے کہ فوڈ اتھارٹی کو ایک دم کہاں سے ایسے فرشتہ نما ملازم مل جائینگے جو دباﺅ یا کرپشن کا شکار نہیں ہونگے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ وزیراعظم کےخلاف الزامات پر اعلیٰ عدلیہ میں اوپن کیس چل رہا ہے جبکہ ناقص اشیا تیار کرنے والے بڑے اداروں کا نام تک نہیں بتایا جاتا۔ اربوں کھربوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں اتنی آسانی سے تو خود کو تبدیل کرنے پر تیار نہ ہونگی جبکہ ان کےلئے کسی افسر کو ٹرانسفر کرانا آسان ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل نے پروگرام میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں فوڈ اور ڈرگ کنٹرول اتھارٹیز بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس طرز کا کوئی ادارہ قائم نہ کیا گیا جو کام 1947ءمیں ہونا چاہیے تھا یہاں اب ہو رہا ہے۔ پانچ دس سال مزید یہی خوراک بچوں کو ملتی رہی تو وطن عزیز کو پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ رہے گی۔ پنجاب میں 2011 میں فوڈ سکیورٹی ایکٹ پاس کیا گیا اس سے قبل صوبے میں صرف 18 فوڈ انسپکٹرز تھے جو مناسب تعلیم یافتہ تک نہ تھے۔ اب صوبے کی ہر تحصیل میں ایک فوڈ سیفٹی افسر، دو اسسٹنٹ سیفٹی افسر اور دیگر عملہ موجود ہے۔ صوبائی حکومت نے فوڈ اتھارٹی کو بھرپور پاورز دی ہے ادارہ کسی بھی فیکٹری، ریسٹورنٹ، پروڈکشن یونٹ وغیرہ کو سیل کر سکتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی اب گروپ کی شکل میں کارروائی کرتی ہے جس کے باعث کرپشن کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ فوج اور ایف سی کی طرز پر ایک ویجیلنس ڈائریکٹوریٹ بھی ہے جس کا کام غیرمعیاری اشیاءتیار کرنے والی فیکٹریوں یا جگہوں کا کھوج لگانا ہے دوسرا اس کا کام ہے کہ ادارے میں کرپشن کرنے والے ملازموں پر نظر رکھتا ہے۔ ادارے کے کسی ملازم کو ایک ٹاﺅن میں 6ماہ سے زیادہ نہیں رکھا جاتا، اڑھائی سال بعد دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ ڈی جی فوڈ نے کہا کہ کھلا دودھ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے دنیا میں کہیں بھی کھلا دودھ نہیں بکتا ہمارے ہاں 95 فیصد کھلا دودھ بکتا ہے۔ حکومت کو سفارش کی ہے کہ دو یا تین سال کا وقت دیا جائے پھر کھلا دودھ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔ 70 سال سے کسی نے فوڈ انڈسٹری کو چیک نہیں کیا۔ ہمارا اس پر اب پورا فوکس ہے۔ دودھ، گھی اور بچوں کے کھانے کی اشیاءخالص ہوں تو اس سے 90 فیصد بہتری آ جائے گی۔ انڈسٹری کو دو سے تین ماہ میں سیٹ کر دینگے۔ لیبارٹریاں ٹھیک کی جائیں گی اور مسلسل چیکنگ ہوگی۔ مصنوعی طور پر تیار کردہ دودھ انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے سزا بہت کم ہے جو بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت اب تک کوئی کمپنی ایسی سامنے نہیں آئی جس کو 10/10 نمبر دئیے جا سکیں۔ 60 فیصد ڈبہ پیک دودھ میں دودھ شامل ہی نہیں ہوتا یہ صرف سفید محلول ہوتا ہے جو چائے یا کافی کو سفید کرنے کےلئے استعمال ہوتاہے۔ یورپ میں یہ 1فیصد پاکستان میں 60 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی دو سو ٹیمیں ہیں اپنا دائرہ کار پورے پنجاب تک بڑھا رہے ہیں۔ عشروں کے بگاڑ کو ٹھیک کرنے کےلئے تھوڑا وقت تو درکار ہوگا۔ دو سال تک سب ٹھیک کر دینگے۔ پورا یقین ہے کہ اگر پنجاب فوڈ اتھارٹی ٹھیک کام کرے تو آدھے ہسپتال خالی ہو جائیں گے۔ ملاوٹ شدہ اشیا تیار کرنے والے کو 14 سال قید کی سفارش اور اس کی جگہ ضبط کرنے کی سفارش کی ہے۔ نورالامین مینگل نے کہا کہ پہلے فوڈ لائسنس عام مل جاتا تھا لیکن اب اس کا حصول ایسا ہی ہے جیسے کسی نے اسلحہ لائسنس لینا ہو۔ کھانے پینے کی اشیاءتیار کرنے والوں کو اب لائسنس لازمی لینا ہوگا۔ اس کے بغیر کام کی اجازت نہیں ہوگی۔ کام کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہم نوٹس دیتے ہیں پھر جرمانہ ہوتا ہے پھر سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی باز نہ آئے تو دوبارہ جگہ سیل کر دیتے ہیں پھرخلاف ورزی کرے تو لائسنس کینسل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ڈیری پراڈکٹ تیار کرنے والے کا لائسنس کینسل کیا تو وہ ہائیکورٹ چلے گئے عدالت نے ان کا دعویٰ مسترد کر دیا جو بڑا خوش آئند فیصلہ تھا۔ دنیا بھر میں اچار، مربہ، کیچپ، چائے ایسی اشیاءکہیں بھی کھلی نہیں بیچی جاتیں۔ ہمارا ٹارگٹ بھی یہی ہے۔ ہمارا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا کام یہ چیک کرنا ہے کہ اشیاءکہاں سے بن کر آ رہی ہیں۔ گوشت کے حوالے سے سنسنی زیادہ پھیلائی گئی ہے، ابھی تک کہیں بھی گدھے، کتے یا کسی اور جانور کا گوشت نہیں پکڑا گیا۔ ٹولنٹن مارکیٹ میں بیمار مرغیاں ذبح کر کے بیچ دیتے تھے وہاں کئی بار چھاپے مارے اور منوں کے حساب سے گوشت تلف کیا۔ اب وہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ادارے کی ویب سائٹ موجود ہے جہاں کوئی بھی شہری شکایت درج کرا سکتا ہے۔ پنجاب کے علاوہ صرف خیبرپختونخوا میں فوڈ اتھارٹی بنائی گئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومت کو بھی یہ ادارے بنانے چاہئیں۔ ڈی جی فوڈ نے کہا کہ پچھلے سال پانی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے 313 سیمپل لئے جن میں سے 50 کے رزلٹ آئے ان میں 27 کمپنیوں کا پانی ٹھیک نہیں تھا وہ سب بند کرا دی ہیں۔ ہمارے یہاں بچوں کے کھانے کی چیزیں بہت ہی ناقص ہیں ان پر ہماری خاص نظر ہے۔ ہماری ویب سائٹ پر فوڈ لائسنس کےلئے اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ اب ہم ای لائسنس شروع کر رہے ہیں جو پانچ سال تک کےلئے ہوگا۔ ہمیں سیاسی، عدلیہ، سول سوسائٹی، میڈیا سب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہماری ایپ، فیس بک سائٹ بھی ہے جہاں شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔