تازہ تر ین

افغانستان انتقام کی زد میں

سجادوریا
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کے دورے کے دوران سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ میڈیا کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں، میرا مشاہدہ ہے کہ جب سے طالبان حکومت قائم ہوئی ہے، وہ محتاط، ذمہ دار اور دانشمندانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیابلکہ عمل بھی کیا، انسانی حقوق کا خیال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، خواتین کے حقوق کو بھی کسی حد تک نرمی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی معاف کر چکے ہیں بلکہ تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ افغان وزیر خارجہ کہتے رہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں جس سے امریکہ و دیگر ممالک ہمیں تسلیم کر لیں۔ طالبان کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قطر میں طالبان قیادت کے ساتھ امریکہ مذاکرات کرتا رہا، ان سے اپنی افواج کا تحفظ مانگتا رہا، اپنی افواج کے انخلاء میں مدداور تعاون بھی لیا۔
میں کئی ماہ سے لکھ رہا تھا کہ امریکہ اپنی شکست و ہزیمت کو تسلیم کر کے اچانک بھاگ رہا ہے، اس کی عالمی تھانیداری کے امیج کو بھی ٹھیس پہنچی ہے، لیکن اس نے جوش کی بجائے ہوش کا مظاہرہ کیا، اس نے وقتی شکست برداشت کر لی ہے لیکن اپنی سالمیت کا دفاع کر لیا ہے، امریکہ نے رُوس کی طرح ٹوٹنے کا انتظار نہیں کیا، اپنے معاشی و عسکری وسائل کا تحفظ کر لیا ہے۔ امریکہ اب محفوظ مقام پر بیٹھ کر افغانستان کا بازو مروڑنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ یہ کر رہا ہے، صرف افغانستان نہیں پاکستان کو بھی بلیک میل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ افغانستان تو پہلے بھی ٹھکانہ تھااور پاکستان اصل نشانہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سٹیٹس اب بھی نہیں بدلا۔ ہمارے کئی معتبر دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ امریکہ نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کر دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ پاکستان نے اگر تعاون نہ کیا تو پاکستان پر بھی حملہ کیا جائے گا، لیکن پاکستان ان کی چال سمجھ گیا۔
جنرل مشرف پر تنقید ہو تی ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے نہیں ٹھہر پائے، ایسا ہر گز نہیں بلکہ انہوں نے اس فیصلے کے ذریعے امریکہ کو اس دلدل میں دھکیل دیا جس سے نکلنے میں اسے بیس سال لگے۔ ان بیس سالوں میں چین ایک طاقتور معیشت کے ساتھ خطے کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ ان بیس سالوں میں پاکستان نے امریکہ کا اتحادی ہونے کے طور پر اپنے مفادات اور تحفظات کو لے کر امریکہ سے اپنی بات منوائی۔ امریکہ مجبور تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں جنگ کو جاری بھی نہیں رکھ سکتا تھا، اس لئے پاکستان نے اپنی اس پوزیشن کا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ امریکہ کا اصل ہدف پاکستان ہے۔ ”کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ“ کے مصداق امریکہ کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر افغانستان میں بیٹھ جاوٗ اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے اس جنگ کو پاکستان میں دھکیل دو، پھر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے بہانے پاکستان میں داخل ہوجاؤ۔ پاکستان کی عسکری، سیاسی قیادت نے بر وقت فیصلے کیے، انہوں نے بے مثال قربانیاں دیں۔
ہماری سِول آبادی نے بہت زخم برداشت کیے۔ لیکن افغانستان سے دہشت گردی کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا۔ افغانستان میں جاری جنگ کی طوالت نے امریکہ کو تھکا دیا اور وہ اچانک بھاگ نکلے۔ میں سمجھتا ہوں اس سلسلے میں زلمے خلیل زاد نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وہ افغان نژاد امریکی ڈپلومیٹ ہیں۔ وہ22 مارچ1951 ء کو مزار شریف افغانستان میں پیدا ہوئے۔ انتہائی سمجھداراور صاحبِ بصیرت ہیں، انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کی سمت درست نہیں تھی، گزشتہ سات سالوں کے دوران طالبان کا قبضہ بڑھتا جا رہا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور طالبان کے معاملات کو ہینڈل کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ انہوں نے جنگ بندی کے مذاکرات اور انخلاء کے اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ رکھا۔ اس طرح طالبان کو کامیابی ملی۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ طالبان کو کامیابی مبارک لیکن اتنے شادیانے تو طالبان نے خود نہیں بجائے جتنے کئی پاکستانی وزیر بجاتے رہے، طالبان نے اپنی کامیابی کو شائستگی سے عمدگی سے اپنی جدوجہد سے تعبیر کیا۔ پاکستان کو بھی تنگ کیا جائے گا۔ پاکستان سے اب امریکہ کے براہِ راست مفادات بہت محدود ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف، فیٹف اور دوسرے کئی فورمز پرپاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پاکستا ن کو بہت محتاط اور دانشمندانہ انداز میں چلنا ہوگا، یورپی ممالک سے تعلقات کو اہمیت دینا ہو گی۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسکی طاقت ہے، لیکن کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جغرافیائی پوزیشن گلے کی ہڈی بن گئی ہے، مسائل ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتے۔ پاکستان کو اس وقت معیشت کے محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے، جس کا اثر مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت پر اب افغانستان کی بُری معیشت کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔ ان خدشات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور حکومتی سفارتکار دنیا کو درخواست کر رہے ہیں کہ افغانستان کی مدد کی جائے، افغانستان میں انسانی بحران پیدا ہونے کو ہے، افغانستان کی مدد کی جائے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پہاڑ بن کے کھڑا ہے، امریکہ جن طالبان سے جنگ لڑ رہا تھا اب ان کی مدد کیوں کرے؟جن کو نیست و نابود کر رہا تھا اب ان کی معیشت کو سنبھالاکیوں دے؟طالبان کے جرائم ناقابلِ برداشت ہیں، وہ اشرف غنی کی طرح کٹھ پتلی نہیں بنیں گے، اشرف غنی کے جیسے بھارت کے وفادار نہیں بنیں گے۔ امریکہ کبھی انسانی حقوق کا چیمپئن بن جاتا ہے جب اس کو کسی کا بازو مروڑنا ہو تا ہے ورنہ بھارت میں اس کو انسانی حقوق نظر نہیں آتے، اعراق، لیبیا اور شام میں انسانی حقوق کو تہس نہس کرنے والا امریکہ ہے۔
پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے اشرف غنی حکومت کے فارمولے پر عمل کرنا ہو گا۔ دنیا ایک دم مہربا ن ہو جائے گی، بھارت بھی ان کو جہاد فنڈ کا اعلان کر دے گا، عالمی میڈیا ان کی جمہوریت پسندی، اصول پسندی اور بہادری کے گُن گانے لگے گا۔ افغانستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے ورلڈ بینک امداد اور قرضے جاری کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اب انتقام کی زد میں ہے، اب افغان عوام انسان نہیں رہے اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain